Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور حملہ: ’7 گھنٹے ملبے تلے دبا رہا اور اس دوران میرے اوپر ایک لاش پڑی رہی‘

پشاور دھماکے میں 100 افراد ہلاک اور 221 سے زائد زخمی ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے شمالی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والا خود کش دھماکہ ’انتقامی حملہ‘ تھا۔
پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کو ہونے والا حملہ، جس میں 100 افراد ہلاک اور 221 سے زائد زخمی ہوئے، ایک ‘انتقامی حملہ‘ تھا۔
‘ہم دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں فرنٹ لائن پر ہیں اس لیے ہمیں نشانہ بنایا گیا۔‘
خیال رہے کہ پیر کو ظہر کی نماز کے لیے پولیس لائن کی مسجد میں 300 سے 400 پولیس اہلکار جمع تھے جب پوری دیوار اور مسجد کی چھت زوردار دھماکے سے اُڑ گئی۔
پشاور پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ’حملے کا مقصد پولیس فورس کے مورال کو پست کرنا تھا۔‘
اگست 2012 میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پشاور اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں نچلے درجے کی عسکریت پسندی بڑھ رہی تھی جس میں پولیس چیک پوسٹوں اور اہلکاروں پر حملے شامل تھے۔
ان حملوں میں سے اکثر کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی رہی ہے، تاہم پولیس لائن دھماکے کی طرح کے بڑے حملے بہت کم ہوئے۔
آئی جی خیبر پختونخوا نے صحافیوں کو بتایا کہ ’حملہ خودکش تھا اور حملہ آور بطور مہمان مسجد میں داخل ہوا تھا۔‘
ان کے مطابق ’تحریک طالبان کے ساتھ منسلک رہنے والا گروپ اس حملے میں ملوث ہوسکتا ہے۔‘
حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ شہر کے وسط میں انتہائی سکیورٹی والے علاقے میں اس طرح کی سکیورٹی بریچ کیسے ہوئی؟

آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا کہ ’حملہ خودکش تھا اور حملہ آور بطور مہمان مسجد میں داخل ہوا تھا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

نگراں وزیراعلٰی اعظم خان نے تصدیق کی کہ ’حملہ خودکش تھا جس میں 95 افراد ہلاک اور 221 زخمی ہوئے ہیں۔‘ بعد میں ہلاکتوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی۔
23 سالہ پولیس کانسٹیبل وجاہت علی نے ہسپتال کے بستر پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں سات گھنٹے تک ملبے تلے دبا رہا اور اس دوران میرے اوپر ایک لاش پڑی رہی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زندہ بچنے کی میری تمام امیدیں دم توڈ گئی تھیں۔‘
وجاہت علی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور اس وقت وہ مقامی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
دھماکے میں بچ جانے والے پولیس افسر شاہد علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب امام نے نماز کے لیے تکبیر پڑھی تو فوراً بعد ہی دھماکہ ہوگیا۔‘
47 سالہ شاہد علی کے مطابق ’دھماکے کے بعد انہوں نے سیاہ دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھا۔‘

تحریکِ طالبان پاکستان کا حملے سے لاتعلقی کا اظہار

تحریکِ طالبان پاکستان نے پشاور پولیس لائن میں ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان نے پشاور پولیس لائن میں ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

منگل کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کردہ وضاحت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’اس واقعے سے تحریک طالبان پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمارے دستور کے مطابق مساجد، مدارس، جنازہ گاہوں اور دیگر مقدسات میں کسی قسم کی کارروائی قابل مواخذہ جرم ہے۔‘
تاہم پشاور میں ایک سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حکام دھماکے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
’اس میں ٹی ٹی پی، اس سے الگ ہونے والے دھڑے، داعش یا ان تمام گروپوں کے مشترکہ حملے کے امکانات پر تحقیقات ہو رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی میں شدت پسند گروہ بشمول ٹی ٹی پی مساجد پر حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے رہے کیونکہ مسجد کو مقدس جگہ سمجھا جاتا ہے۔‘

شیئر: