Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت نے بالآخر پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے؟

پولیس نے شیخ رشید کو آصف زرداری کے خلاف الزامات عائد کرنے کے مقدمے میں گرفتار کیا (فوٹو: شیخ رشید ٹوئٹر)
فواد چوہدری کے بعد پی ٹی آئی دور کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی گرفتاری اور پی ٹی آئی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف مقدمے کے اندراج نے یہ تاثر گہرا کر دیا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاون کا آغاز کر دیا ہے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کی گجرات کی رہائش گاہ پر چھاپہ اور ان کے سٹاف کے خلاف کارروائی سے بھی ان عزائم کا اظہار ہو رہا تھا کہ شاید اپوزیشن کے خلاف حکومت نے فیصلہ کن اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات پولیس نے شیخ رشید کو سابق صدر آصف زرداری کے خلاف الزامات عائد کرنے کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا جنہیں مقامی عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
بدھ کو ہی ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے الزام میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
خاتون رہنما کے خلاف مقدمہ لاہور کے تھانہ ویمن پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا جس کے مطابق ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شاندانہ گلزار نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔
گذشتہ دنوں عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے پی ٹی آئی کے شعلہ فشاں رہنما فواد چوہدری کو بھی الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو دھکمیاں دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
کریک ڈاؤن کے پیچھے کیا پلان ہے؟
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق ’کریک ڈاون تو ہو رہا ہے کیونکہ ایک گرفتاری نہیں بلکہ ایک سیریز ہے گرفتاریوں کی اور پی ٹی آئی کے ایک کے بعد ایک لیڈر پر مقدمے ہو رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ عدالت کافی ریلیف دے رہی ہے۔‘

تجزیہ کار نادیہ نقی کے مطابق ’حالیہ گرفتاریوں میں سیاسی حکومت کے بجائے اوروں کا کردار نظر آتا ہے‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں جب پی ٹی آئی نے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا تو نیب قانون کے تحت مقدمات بنائے گئے تھے جس میں ریلیف کم ملتا تھا اور چھ چھ ماہ بغیر ریفرنس کے جیل میں رکھا جاتا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے خلاف مقدمے جن کیسز میں ہیں ان میں جلدی ضمانت ہو جاتی ہے۔‘
ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’حکومتی کریک ڈاؤن کے پیچے ایک پلان نظر آرہا ہے۔ ایک تو خود سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے حکومت ایسی گرفتاریوں سے کام لے رہی ہے تاکہ دباؤ پی ٹی آئی پر منتقل ہو سکے کیونکہ ابھی تک پی ٹی آئی نے ہی دباؤ برقرار رکھا تھا۔‘
تاہم ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’نہ اس کریک ڈاؤن کا فائدہ عمران خان کو ہوا تھا اور نہ ہی موجودہ حکومت کو ہو گا۔‘
کریک ڈاؤن میں سیاست دانوں کا کردار نہیں
تجزیہ کار نادیہ نقی کے مطابق ’حالیہ گرفتاریوں میں سیاسی حکومت کے بجائے اوروں کا کردار نظر آتا ہے۔ ماضی کی سیاسی تاریخ میں بھی اس طرح کے پرچے غیر معروف لوگ کٹواتے تھے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’شاندانہ گلزار کے خلاف میجسٹریٹ کی جانب سے مقدمہ کروانے سے اداروں پر سوال اٹھتا ہے‘ (فائل فوٹو: یو این ویمن پاکستان ٹوئٹر)

 ’اسی طرح شاندانہ گلزار کے خلاف مقدمہ میجسٹریٹ کی جانب سے کروانا اور فواد چوہدری کا دو بار ریمانڈ حاصل کرنا، اس سے سیاسی حکومت سے زیادہ اداروں پر سوال اٹھتا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں یا نہیں؟ اور سیاسی حکومت پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ بے بس ہے؟‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’سیاسی حکومت اگر کریک ڈاؤن کرتی تو نیب کے مقدمے بناتی، فرح خان کے معاملے پر پیش رفت ہوتی مگر عمران خان کے خلاف بھی جن معاملات پر پیش رفت ہو رہی ہے وہ ٹیریان کیس اور توشہ خانہ کیس ہیں جن سے لگتا ہے کہ ان کا مقصد عمران خان کو خاموش کرانا ہے۔‘
کیا میثاق جمہوریت پی ٹی آئی کے لیے نہیں؟
کریک ڈاؤن پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار ارشاد عارف کہتے ہیں کہ ’انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کچھ وہ جو کر رہے ہیں جو خود اس عمل سے بارہا گزر چکے ہیں۔‘
’یہ ماضی میں عمران خان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں مگر انہوں نے اپنے تجربات سے بھی سبق نہیں سیکھا۔‘

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کو اداروں کے خلاف متنازع ٹویٹس کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

ان کا کہنا ہے کہ ’کیا ان کی طرف سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات ڈھکوسلہ تھی؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ پانچ کے ٹولے نے انہیں نشانہ بنایا مگر خود وہی کام کر رہے ہیں۔‘
ارشاد عارف نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بنیاد رکھ دی ہے کہ اگلی حکومت بھی مخالفین کو نشانہ بنانے کا عمل وہیں سے شروع کرے جہاں سے اس حکومت نے ختم کیا ہے۔‘
’دوسرا ان کو یقین ہے کہ عمران خان سے الیکشن نہیں جیت سکتے اس لیے ڈرا دھمکا کر دوسرے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، مگر یہ درست طریقہ کار نہیں ہے۔‘
ارشاد عارف کہتے ہیں کہ ’اس عمل سے بھی عمران خان کو مقبولیت ملے گی جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی دور میں نواز شریف کے ساتھیوں کو نشانہ بنانے کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا تھا۔‘
’نواز شریف کے خلاف مسلم لیگ ق بنا کر ان کی جماعت کو 20 ارکان تک محدود کردیا گیا تھا مگر پھر کیا ہوا؟ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی اور اب ق لیگ کہاں ہے؟‘

شیئر: