Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیٹ جی پی ٹی کی لکھی ہوئی تحریر پکڑی جا سکے گی؟

چیٹ جی پی ٹی کی لانچنگ کے بعد دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین نے اس پر تنقید کی ہے (فوٹو: پکسابے)
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم عثمان علی اپنی گزشتہ دو اسائنمنٹس کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے مدد لے چکے ہیں۔ ان کے مطابق اسائنمنٹس کے لیے ویسے بھی انٹرنیٹ کی مدد تو لینی ہوتی ہے تو اس سلسلے میں کیوں نہ چیٹ جی پی ٹی کی مدد لی جائے۔
’میں چیٹ جی پی ٹی کے دیے ہوئے جوابات نقل نہیں کرتا بلکہ اس کی دیگر پلیٹ فارمز سے تصدیق کر کے خود سے اسائنمنٹس بناتا ہوں، ایسا اس لیے کیونکہ کئی معاملات میں ابھی یہ مکمل قابل اعتبار نہیں ہے‘۔
ایک اور طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے وقت کی کمی کے باعث چیٹ جی پی ٹی سے مکمل اسائنمنٹس بنائی ہیں۔ البتہ یہ کوئی بہت اچھی نہیں تھیں۔ اسائنمنسٹس سمیت دیگر تعلیمی امور کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے بنے ان نئے ٹولز نےدنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی تعلیمی ماہرین کو پریشان کر دیا تھا۔ اُردو نیوز کی خبر کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن چیٹ جی پی ٹی کے باعث تعلیمی عمل میں آنے والے نئے چیلنجز پر غور کر رہا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی لانچنگ کے بعد دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین نے اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے ممکنہ غلط استعمال پر سوالات اٹھائے ہیں۔ شعبہ تعلیم کے ماہرین کو تشویش ہے کہ ان ٹولز کی مدد سے طلبا اسائنمنٹس اور آرٹیکلز وغیرہ تخلیق کرنے میں مدد لے سکتے ہیں۔
ایسے میں ’اے آئی کلاسک‘ کے نام سے چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے منگل کے روز ایک ٹول متعارف کرایا ہے جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی مدد سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے نتیجے میں تخلیق کیے گئے مواد اور انسانی محنت میں فرق ممکن ہو سکے گا۔
کمپنی کے مطابق ’اے آئی کلاسک‘ نامی ٹول اس بات کا تعین کر کے بتائے گا تحریر کسی انسان کی لکھی ہوئی ہے یا پھر اسے کسی اے آئی ٹول کی مدد سے بنایا گیا ہے۔
اگرچہ یہ قدم واضح طور پر تعلیمی ماہرین کی جانب سے کی گئی تنقید کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔ تاہم کمپنی نے واضح کیا ہے کہ فی الحال یہ ٹول اس قدر پائیدار نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کم از کم ایک ہزار الفاظ پر مبنی تحریر کو تو یہ ٹول پرکھ لے گا۔ مگر اس سے کم الفاظ کی تحریر پر یہ کارآمد نہیں۔
’اس مقصد کے لیے ہم نے چیٹ جی پی ٹی سے کچھ سوالات کیے اور پھر ان کے جواب پرکھنے کے لیے ’اے آئی کلاسک‘ کے حوالے کر دیے۔ پہلی مرتبہ تو چیٹ جی پی ٹی کا تخلیق کیا گیا مواد اس ٹول نے فوراً پکڑ لیا، مگر دوسرے سوال کے جواب میں یہ ٹول کچھ کنفیوژ دکھائی دیا۔‘
اوپن اے آئی نامی کمپنی کے مطابق اس ٹول کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں ماہرین سے بھی مدد طلب کی گئی ہے۔ اس حوالے سے چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی سے قبل اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے محقیقین نے بھی ایک ٹول متعارف کرانے کا دعویٰ کیا  ہے۔

ومبر2022  میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے چیٹ جی پی ٹی نے انٹرنیٹ کی دنیا پر خاصا طوفان کھڑا کر رکھا ہے (فوٹو: فائیور)

ماہرین کے مطابق اس ٹول سے چیٹ جی پی ٹی سمیت مختلف لارج لینگویج ماڈلز کے تخلیق کیے گئے مواد کو پکڑنے میں آسانی ہو گی۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ایرک مچل نے ٹوئٹر تھریڈ میں تحریر کیا کہ چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسے دیگر ٹولز بہت آسانی سے تحریر لکھ دیتے ہیں جو ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔
’لوگوں کو تشویش ہے کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے تخلیق کی گیا مواد سب کو بہا لے جائے گا، اس لیے ہم نے ڈیٹیکٹ جی پی ٹی نامی ٹول تخلیق کیا ہے تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ یہ مواد کسی لرننگ ماڈل نے بنایا ہے یا نہیں۔‘
اگرچہ ڈیٹیکٹ جی پی ٹی کی ویب سائٹ پر فی الحال صرف جی پی ٹی 2 کے تخلیق کیے گئے مواد کا ’ڈیمو ‘ موجود ہے۔ تاہم محقیقین کا دعویٰ ہے کہ مستقبل قریب میں جی پی ٹی 3 سمیت دیگر لینگویج پراسیسرز کے تخلیق کیے گئے مواد پر بھی کام کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ نومبر2022  میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے چیٹ جی پی ٹی نے انٹرنیٹ کی دنیا پر خاصا طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل چیٹ بوٹس یا لینگویج پراسسنگ ماڈلز اپنا وجود نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ اس سے قبل جی پی ٹی 1،2 اور 3 کے نام سے 3 بڑے لینگویج پراسسنگ ماڈل متعارف کرا چکی تھی۔ جبکہ اسی برس 2023 میں جی پی ٹی 4 کوبھی متعارف کرائے جانے کا امکان ہے۔

شیئر: