Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم اُستاد طالبان کی حراست میں

استاد اسماعیل مشال کابل میں خواتین اور مردوں میں مفت کتابیں بانٹ رہے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغان طالبان نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک استاد کو حراست میں لے لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو شعبہ صحافت کے استاد اسماعیل مشال کے ایک دوست نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو طالبان نے ان کو مارا پیٹا اور پھر حراست میں لیا۔
دسمبر میں اسماعیل مشال نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے احتجاج کرتے ہوئے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اپنی تعلیمی اسناد پھاڑ دی تھیں۔
حالیہ دنوں میں ٹیلی ویژن چینلز نے ان کو کتابیں مفت تقسیم کرتے ہوئے دکھایا تھا۔
اسماعیل مشال کے دوست فرید احمد فضلی کا کہنا ہے کہ ’مشال کو بے رحمی سے مارا پیٹا گیا اور اسلامی امارات کے اراکین ان کو انتہائی نامناسب طریقے سے اپنے ساتھ لے گئے۔‘
ایک طالبان عہدیدار نے ان کے حراست میں لینے کی تصدیق کی ہے۔
اطلاعات اور ثقافت کے ڈائریکٹر عبدالحق حماد نے ٹویٹ کیا کہ وہ نظام کے خلاف اشتعال دینے والی کارروائیوں میں ملوث تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسماعیل مشال کو سکیورٹی اداروں نے تفتیش کے لیے حراست میں لیا ہے۔

افغانستان میں خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اسماعیل مشال کابل کی تین یونیورسٹیوں میں لیکچرر رہ چکے ہیں۔
ان کے دوست کا کہنا تھا کہ ’وہ خواتین اور مردوں میں مفت کتابیں بانٹ رہے تھے۔ وہ اب بھی حراست میں ہیں اور ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں ہیں۔‘
ٹیلی ویژن چینل ’طلوع نیوز‘ پر تعلیمی اسناد پھاڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
افغانستان کے قدامت پسند اور پدرشاہی معاشرے میں ایسا بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک مرد خواتین کے حق میں احتجاج کرے۔
اسماعیل مشال نے کہا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے۔

خواتین اپنی مدد آپ کے تحت گھروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اُس وقت اے ایف پی کو اسماعیل مشال نے بتایا تھا کہ ’ایک مرد اور ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میں ان (خواتین اور لڑکیوں) کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ میری تعلیمی اسناد کسی کام کی نہیں تو میں نے ان کو پھاڑ دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔۔۔ میں اپنے احتجاج جاری کو رکھوں گا اگر میری زندگی کو نقصان بھی پہنچا تو۔‘
تعلیم پر پابندی کے خلاف اسماعیل مشال کے علاوہ مردوں کے ایک گروپ نے بھی احتجاج کیا تھا۔
طالبان جب اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے گزشتہ حکومت کی بنسبت اس مرتبہ نرم پالیسی رکھنے والی حکومت کا وعدہ کیا تھا تاہم وقت کے ساتھ انہوں نے سخت پالیسیاں نافذ کیں۔

شیئر: