Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف نائن پارک میں زیادتی: اسلام آباد پولیس کے مشورے پر تنقید

پولیس نے لڑکی سے زیادتی کے ملزم کا سکیچ جاری کیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
چند روز قبل اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک لڑکی سے زیادتی کے واقعہ کے تفتیشی عمل کی اپ ڈیٹ دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے پارک آنے والوں کو مشورہ دیا جو سوشل میڈیا صارفین کو نہیں بھایا۔
پیر کو اسلام آباد پولیس کے ٹوئٹر ہینڈل سے ’ایف نائن پارک واقعہ‘ کے عنوان سے کی گئی ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ’پولیس وقوعہ کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش عمل میں لا رہی ہے۔‘
پارک میں سکیورٹی صورتحال سے متعلق لکھا گیا کہ ’ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پولیس پارک کے سکیورٹی انتظامات کو بہتر کر رہی ہے۔‘
اسی ٹویٹ میں پارک آنے والے افراد کو تجویز دی گئی کہ ’شام کے اوقات میں پارک تشریف لانے والوں سے گذارش ہے کہ روشنی والے مقامات تک محدود رہیں۔‘

اسلام آباد پولیس کی اس ٹویٹ پر ردعمل دینے والے کچھ صارفین کو مشورہ پسند آیا تو اتفاق کیا کہ اندھیرے مقامات سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
مریم وسیم نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ ’اندھیرے مقامات کو باڑ لگا کر علیحدہ کر دیں اور شام کے بعد بند کر دیں، جہاں تک روشنی ہے وہ کھلا رہے۔ باہر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘

اسی دوران کچھ ایسے ٹویپس بھی گفتگو کا حصہ بنے جنہیں پولیس کی اس اپیل نے متاثر نہ کیا تو انہوں نے جواب میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا خاصا حصہ تاریک ہوتا ہے کیا وہاں نہ جانے کا مشورہ دینے سے پولیس کا کام پورا ہو جاتا ہے۔
نسیم اکرم نے لکھا کہ ’سورج ڈھلنے کے بعد وفاقی دارالحکومت کی اکثر شاہراہوں پر اندھیرے کا راج ہوتا ہے، یقین جانیں ہم خواتین اس صورتحال سے نہایت خوفزدہ رہتی ہیں اور حتی الامکان شام کے بعد اسلام آباد میں سفر سے گریز کرتی ہیں۔ یہ احوال بلیو ایریا اور دیگر کئی معروف علاقوں کا ہے۔‘

فاطمہ انور کو بات کی سمجھ نہ آئی تو پولیس سے وضاحت چاہی کہ شام کے بعد اندھیرے مقامات سے گریز کا کیا مطلب ہے۔

فہیم محسن کو یہ مشورہ نہیں بھایا تو سوال کیا کہ ’کیا عوام کی جان و مال کی زمہ داری ہر جگہ ، روشنی اور اندھیرے میں آپ کی زمہ داری نہیں۔‘

چند روز قبل ایف نائن پارک میں پیش آنے والے واقعہ کے مقدمہ کے مطابق نامعلوم افراد نے ’اپنے کولیگ کے ساتھ پارک آنے والی‘ ایک لڑکی کو ’اندھیرے میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں کرائے کے لیے رقم دے کر خاموش رہنے اور اندھیرے میں گھومنے پھرنے سے گریز‘ کا مشورہ دیا تھا۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے معاملے کا ذکر کیا تو سپیکر نے انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کو واقعہ کی رپورٹ دینے کی ہدایت کی۔
قومی اسمبلی کے اکاؤنٹ سے کی گئی ٹویٹ میں لکھا گیا کہ ’ڈپٹی سپیکر معاملے پر رولنگ بھی دی۔‘

شیئر: