Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں ریپ کا معاملہ چھپانے کی ’عدالتی کوشش‘

مہسا امینی کی حراست کے بعد سے ایران میں شدید احتجاج جاری ہے (فوٹو: اے پی)
ایران کے سرکاری وکیلوں کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے پاسداران انقلاب کے دو اہلکاروں کی جانب سے دو خواتین کے ریپ کے معاملے کی پردہ پوشی کی۔
عرب نیوز نے برطانوی اخبار گارڈین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ عدالتی دستاویز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاسداران انقلاب کے اہلکاروں نے تہران میں ایک وین کے اندر ستمبر میں مبینہ طور پر 18 اور 23 سالہ خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
ان خواتین کو مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
ان خواتین کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے ان کے موبائل فونز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دستاویز عدالت علی گروپ کی جانب سے سب سے پہلے نیوز چینل ایران انٹرنیشنل کو لیک کیا گیا۔
اگرچہ سماجی کارکن طویل عرصے سے یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ سرکاری حکام احتجاج کے دوران گرفتار کی جانے والی خواتین کا ریپ کرتے ہیں تاہم پہلی بار ایسی عدالتی دستاویز سامنے آئی ہیں جن کی وجہ سے اس مخصوص کیس کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد شاہریاری، جو تہران پراسیکیوٹر آفس کے سربراہ بھی ہیں، کی جانب سے لکھی گئی دستاویز پر 13 اکتوبر 2022 کی تاریخ درج ہے۔
دستاویز میں پاسداران انقلاب کے ایک جنرل اور فورس کے پراسیکیوٹر علی صالحی کو مخاطب کیا گیا ہے۔
اس میں عینی شاہدین کے بیانات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دو خواتین پر دو سکیورٹی حکام کی جانب سے حملہ کیا گیا۔

ایران میں احتجاج کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے (فوٹو: روئٹرز)

 عدالتی دستاویز میں خواتین اور حملہ کرنے والوں کے نام بھی شامل ہیں۔
یہ معامہ اس وقت سامنے آیا تھا جب پاسداران انقلاب کے اہلکار نے حملہ کا نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک کو ٹیلی فون کال کی اور خاتون نے اس کال کو ریکارڈ کر کے شکایت درج کرائی۔
 شروع میں سکیورٹی عہدیدار نے الزام کو ماننے سے  انکار کیا تاہم بعدازاں یہ کہتے ہوئے اعتراف کر کہا کہ ’اس میں خاتون کی مرضی بھی شامل تھی۔‘
اس کے بعد سکیورٹی اہلکار اور اس کے والد کو ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا جبکہ دوسرے اہلکار جس پر ریپ کا الزام ہے، کو ایک اور مقام سے گرفتار کیا گیا۔

ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کو تہران میں احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

رپورٹ میں ایک آفیسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ستار خان سٹریٹ کے قریب گیس سٹیشن کے پاس سے دو خواتین کو پکڑا تھا پھر ان کو پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹر لے جایا گیا تاہم جب انہیں بتایا گیا کہ یہاں ملزمہ خواتین کے حوالے سے کوئی کارروائی ممکن نہیں تو وہاں سے لے گیا۔
دستاویز کے مطابق ’معاملے کی نزاکت اور سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر اس کو خفیہ رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔‘
اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’چونکہ ابھی تک کوئی شکایت درج نہیں ہوئی اور مدعا علیہان کو جانے دیا گیا ہے اس لیے ملزموں کو بھی ان کے ناموں کے تذکرہ بغیر کیے بغیر برخاست کر دیا جائے۔‘
دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کیس کو فوجی ادارے کے حوالے کیے بغیر ختم کر دینا چاہیے۔‘

شیئر: