Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں غیرملکی کافی شاپ کے باہر طویل قطاریں ’کیا واقعی ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے‘

لاہور میں کینیڈین کافی شاپ کی برانچ کا افتتاح طویل قطاروں کی وجہ سے سوشل ٹائم لائنز کا موضوع رہا۔ (فوٹو: عارف آجاکیا، ٹوئٹر)
پاکستان کے مختلف مقامات پر اچھی چائے کے مراکز کے سامنے رش ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن محبان چائے کے ملک میں کافی شاپ کے سامنے رش لگ جائے تو یہ اچنبھے کی بات ہوتی ہے۔
حیرت اس وقت کچھ اور زیادہ ہو جاتی ہے جب سوشل ٹائم لائنز یہ دعویٰ بھی کرنے لگتے ہیں کہ ’کافی شاپ نے افتتاح کے روز ہی سب سے زیادہ سیل کا ریکارڈ قائم کر لیا۔‘
ایک اور در حیرت اس وقت وا ہوتا ہے جب یہ سننا پڑے کہ ’نئی کافی شاپ کے سامنے خریداروں کی طویل لائنیں رہیں۔‘
یہ صورتحال کسی ناول کی سطور یا ڈرامے کا سین نہیں، پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں کینیڈین کافی چین کی اولین برانچ کے باہر کے مناظر اور اس سے متعلق گفتگو کا احوال ہے۔
موضوع کوئی بھی ہو، مقام سوشل میڈیا کا ہو تو یہ بات تقریبا طے ہوتی ہے کہ گفتگو میں طنز، تنقید، تقابل، تشویش، امید اور سراہے جانے سمیت سارے رنگ ضرور ہوں گے۔
یہ سلسلہ چلا تو کہا گیا کہ ’غیرملکی برانڈ کی جانب سے مستحقین میں راشن بیگ بانٹنا قابل ستائش ہے۔‘

کھانے پینے کے لیے طویل لائنیں عام طور پر خیراتی مراکز یا مفت دسترخوانوں سے خاص سمجھی جاتی ہیں۔ اسی کا اظہار کرنے والوں نے لاہور ہی کے ایک ایسے مرکز سے تقابل کیا تو تحریر و تصویر میں طنز چھپا نہ رہ سکا۔

ملک کے خراب معاشی حالات اور غیرملکی کافی برانڈ کی شاپ کے باہر لگی قطاروں میں تضاد کی نشاندہی ہوئی تو سوال کیا گیا کہ ’کیا ہم واقعی ڈیفالٹ ہوتا ہوا ملک ہیں۔‘
گفتگو نے سماجی رویوں اور طبقاتی فرق کی نشاندہی کا موڑ مڑا تو کون قطار بناتا ہے اور کون نہیں کا ذکر کرتے ہوئے غیرملکی برانڈ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے قوم کو لائن میں ٹھہرنے کا موقع دیا۔

یہی سلسلہ آگے بڑھا تو پاکستانی اداکار فرحان سعید نے اپنے خوف کی نشاندہی اور اس کی وجہ بیان کی۔ ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’یہاں دو پاکستان ہیں۔ ایک آٹے اور گھی کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہر موجود لائنوں میں اور دوسرا ٹم ہارٹنز پر ہے۔ دونوں کے درمیان میں کچھ نہ ہونا مجھے خوفزدہ کرتا ہے۔‘

لائنوں میں رہ کر کافی کا انتظار کرنے والوں میں شریک افراد نے اپنے تاثرات بیان کیے تو ساری انفرادیت کے باوجود اسے ’پاگل پن‘ تسلیم کیا۔

ٹم ہارٹنز کی پاکستانی برانچ دیکھنے والوں کے مطابق ’اس نے کینیڈا میں موجود برانچز جیسی توجہ تو حاصل کی ہے، اندرونی مناظر سے لگتا بھی وہی ہے۔ کافی کے ساتھ ڈونٹس کی جوڑی بھی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فاسٹ فوڈ چین ہوتے ہوئے تنوع کی کمی کیا رنگ لاتی ہے۔‘
کافی کو پسند کرنے والے تقریبا سال بھر سے کینیڈین کافی چین کی لاہور میں پہلی برانچ کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا انتظار تو ختم ہوا لیکن افتتاح اور بعد کی سرگرمیوں کا احوال بتاتا ہے کہ نسبتا کم قیمت ہونے کے باوجود ورائٹی کی کمی ٹم ہارٹنز کے لیے پاکستانیوں کے معدے جیتنے کا سفر آسان نہیں رہنے دے گی۔

شیئر: