Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہلاکتوں کی تعداد 41 ہزار سے زائد، مزید 9 افراد ملبے سے نکال لیے گئے

ترکیہ میں تباہ کن زلزلے کے ایک ہفتے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے مزید نو افراد کو نکال لیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امدادی کارروائیوں کا محور اب متاثرین کی مدد کرنا ہے جو شدید سردی کے موسم میں بےگھر ہیں اور انہیں مناسب خوراک دستیاب نہیں ہے۔
ترکیہ اور شام میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تعداد 41 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ دونوں ممالک میں متعدد شہروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے چھ فروری کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد تسلیم کیا تھا کہ ابتدا میں حکومتی ردعمل میں کچھ مسائل تھے لیکن اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔
انہوں نے انقرہ میں ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا تھا کہ ’ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی قدرتی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
منگل کو ریسکیو ہونے والوں میں 17 اور 21 برس کے دو بھائی بھی ہیں جنہیں کہرامنماراس صوبے میں اپارٹمنٹس کے ملبے سے نکالا گیا۔
انطاکیہ میں ایک شامی شخص اور جوان خاتون جو دو سو سے زائد گھنٹے تک ملبے تلے پھنسے ہوئے تھے، ریسکیو کیا گیا۔

زلزلہ متاثرین کے لیے مناسب خوراک بھی دستیاب نہیں ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

ایک امدادی کارکن کا کہنا تھا کہ ابھی مزید افراد زندہ بچ سکتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ ریسکیو کا مرحلہ بند ہونے لگا ہے اور توجہ رہائش، خوراک اور سکولنگ پر مرکوز ہے۔
ترکیہ کے جنوب مشرقی شہر غازی انتیپ میں کھیل کے میدان میں ایک پناہ گزین حسن صائموا اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگ بہت تکلیف میں ہیں، ہم نے خیمہ، امداد یا کچھ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن ابھی تک ہمیں کچھ نہیں ملا۔‘
صائموا اور دوسرے شامی جنہوں نے اپنے ملک میں جنگ کی وجہ سے غازی انتیپ میں پناہ حاصل کی تھی، اب زلزلے سے بے گھر ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کھیل کے میدان میں عارضی خیمے لگانے کے لیے پلاسٹک کی چادریں، کمبل اور گتے کا استعمال کیا ہے۔
یورپ کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ہانس ہنری پی کلوج کے مطابق ’ضرورتیں بہت زیادہ ہیں اور گھنٹے کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔ دونوں ممالک میں تقریباً دو کروڑ 60 افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔‘

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ریسکیو کا مرحلہ بند ہونے لگا ہے اور اب توجہ ان کی رہائش پر مرکوز ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ابا، زلزلے کا جھٹکا!‘

ترکیہ کے جنوبی شہر اسکندرون کے ایک فیلڈ ہسپتال میں انڈین فوج کی میجر بینا تیواری نے کہا کہ ابتدائی طور پر مریض جسمانی زخم کے ساتھ پہنچے تھے لیکن یہ بدل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اب زیادہ مریض پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کے ساتھ آ رہے ہیں، ان تمام صدموں کے بعد جس سے وہ زلزلے کے دوران گزرے ہیں۔‘
ترکیہ اور شام میں مختلف خاندانوں نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے زلزلے کے نفسیاتی اثرات سے نمٹ رہے ہیں۔
شام کے شہر حلب کے رہنے والے حسن معاذ نے اپنے نو سالہ بچے کے بارے میں کہا کہ ’جب بھی وہ بھول جاتا ہے، وہ ایک اونچی آواز سنتا ہے اور پھر (زلزلے کے بارے میں) اسے دوبارہ یاد آتا ہے۔‘
’جب وہ رات کو سوتا ہے اور آواز سنتا ہے، تو وہ جاگ جاتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے ابا، زلزلے کے جھٹکے!‘
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں تقریباً 90 لاکھ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں اور اس نے 40 کروڑ ڈالر فنڈنگ کی اپیل کی ہے۔

شیئر: