Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیل بھرو تحریک: گرفتاریوں پر پی ٹی آئی کا موقف تضادات کا شکار ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک جاری ہے۔ بدھ کے روز جب تحریک کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی جانب سے رضاکارانہ گرفتاریوں کے حوالے سے مختلف طرح کے موقف سامنے آتے رہے۔
کچھ رہنما ان گرفتاریوں کو تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی بہادری سے تعبیر کرتے دکھائی دیے تو کچھ نے اسے انسانی حقوق کی پامالی سے تعبیر کیا۔
بدھ 23 فروری کو جب صبح 11 بجے لاہور سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ’عمران خان نے انہیں گرفتاری دینے سے منع کر دیا ہے۔‘
اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لیڈرشپ کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے تاکہ تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے۔
اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے 200 کارکنوں اور پانچ رہنماؤں کی فہرست مرتب کی گئی جنہوں نے ابتدائی مرحلے پر چیئرنگ کراس پر گرفتاری دینا تھی۔
بدھ کی شام تک صورت حال بدل گئی اور لاہور چیئرنگ کراس پر موجود تحریک انصاف کے اکثر رہنما قیدیوں کی گاڑی میں پائے گئے جس کی تصویر خود تحریک انصاف نے جاری کی۔ پریزن وین کی چھت کارکنوں سے بھری ہوئی تھی۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پارٹی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور دیگر نے بیانات جاری کیے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے کمال بہادری سے گرفتاری دی اور کارکنوں نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔
حکومت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق ’پی ٹی آئی کے 81 اراکین نے مرضی سے گرفتاریاں دیں جن کو اب پنجاب کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔‘
تحریک انصاف عدالت پہنچ گئی
جمعرات کو صورت حال بالکل ہی مختلف دکھائی دی جب شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی ماہ نور قریشی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ ان کے والد کو حکومت نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔

پی ٹی آئی کے گرفتار 77 کارکنوں کو 30 سے 90 روز کی قید ہو سکتی ہے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

اس کے تھوڑی دیر بعد ہی سینیٹر ولید اقبال کی اہلیہ نے بھی عدالت میں اپنے شوہر کی جبری گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
ان دو درخواستوں کے بعد پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن اعجاز چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے 9 رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کردی۔
مجموعی طور پر ان درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، عدالت ان کی فوری بازیابی کا حکم دے۔
یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ گرفتار رہنماؤں سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی اور ان تک ادویات اور کھانا بھی نہیں پہنچانے دیا جا رہا۔
تو کیا تحریک انصاف اب اپنے رہنماؤں کو جیل سے باہر نکلوانا چاہتی ہے؟ اس سوال کا اردو نیوز کو جواب دیتے ہوئے جیل بھرو تحریک کے کنوینر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے رہنماؤں کی رہائی نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔‘

اعجاز چوہدری نے عدالت میں پارٹی کے 9 رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کردی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

’ہمارا ہائی کورٹ جانے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس ہمیں یہ بتائے کہ ہماری قیادت اور رہنماؤں کو کہاں رکھا گیا ہے ان سے ملاقاتیں کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔ اسی طرح اس بات کا پتا لگانا بھی جرم نہیں کہ ان پر بنائے گئے مقدمات کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کیا جائے۔‘
دوسری طرف پنجاب حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لاہور کی ضلعی حکومت نے گرفتار 77 کارکنوں اور رہنماؤں پر نقضِ امن پیدا کرنے کے جرم میں 16 ایم پی او کے قانون کا نفاذ کیا ہے۔‘
’جیل میں ان لوگوں کو کتنا عرصہ رکھنا ہے اس کا فیصلہ پنجاب کی وزرات داخلہ کرے گی۔ یہ قید 30 سے 90 دن تک ہو سکتی ہے۔‘
تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ نے بتایا کہ ’ہماری قیادت بشمول شاہ محمود قریشی نے خود گرفتاری دی ہے اور خوف کے بت توڑ دیے ہیں۔ ایسا بہادری کا نظارہ حالیہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ ہم اس جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘
لاہور ہائی کورٹ حراست میں لیے گئے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بازیابی کی درخواستوں پر جمعے کے روز سماعت کرے گی۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ پی ٹی آئی کمرہ عدالت میں کیا موقف پیش کرتی ہے۔

شیئر: