Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ازخود نوٹس کیس: ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے دو ججز پر اعتراضات

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت کہا کہ آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا ہے۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بینچ پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے اعتراضات دائر کر دیے ہیں۔
جمعے کو سپریم کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پیپلز پارٹی نے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے انہیں بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تمام فریقین کو نوٹس نہیں مل سکے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت کا مقصد تمام متعلقہ حکام کو ازخود نوٹس کے متعلق اطلاع دینا تھا۔ فاروق ایچ نائیک اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز یہاں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے تینوں سیاسی جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’ججز کے کردار پر کوئی ذاتی نوعیت کا اعتراض نہیں کر رہے، جو ہدایات ملیں وہ سامنے رکھ رہا ہوں۔‘
’ہدایات ہیں کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ سے الگ ہو جائیں۔‘
فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر پیر کو آپ کو سنیں گے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل نے تینوں سیاسی جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن پہلے ہی غلام محمود ڈوگر کیس میں اس معاملے کو سن چکے ہیں، استدعا ہے دونوں جج صاحبان خود کو ازخود نوٹس سے الگ کر لیں۔
مشترکہ تحریری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے۔ دونوں کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس لیے مذکورہ ججز بینچ سے الگ ہو جائیں۔ یہ دونوں ججز (ن) لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔‘

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ سے الگ ہو جائیں۔‘ (فوٹو: سپریم کورٹ)

فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا یہ معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے؟
اس پر پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ ’انتخابات کا معاملہ عوامی ہے، اس کیس کو فل کورٹ کو ہی سننا چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟‘
فاروق نائیک نے کہا کہ ’عدالت کی آبزرویشنز نوٹ کر لی ہیں، اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔‘
عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

شیئر: