Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف سے معاہدے میں 7 سے 10 دن لگ سکتے ہیں: وزیراعظم

آئی ایم ایف کے ساتھ چند ہفتے قبل ہونے والے مذاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ تاحال سامنے نہیں آیا (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے میں اب بھی کم سے کم ایک ہفتے سے 10 دن تک لگ سکتے ہیں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو اسلام آباد میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران یہ بات کہی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کے شکار سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی باقی ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
گذشتہ ماہ کی 31 تاریخ سے 9 فروری تک اس حوالے سے پاکستان کی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات بھی ہوچکے ہیں تاہم ابھی تک فریقین کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
اجلاس کے دوران شہباز شریف نے نام لیے بغیر ’ایک دوست ملک‘ کی جانب سے فراخدلانہ مالی مدد کا شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سوچ رہے کہ وہ ہماری مدد کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کا انتظار کریں گے لیکن چند دن قبل اس دوست ملک نے ہمیں بتایا کہ ہم آپ کو یہ (مالی مدد) فوراً فراہم کر رہے ہیں۔ یہ چیز یاد رکھی جائے گی۔‘
’اس ملک نے ماضی میں کئی مرتبہ پاکستان کی مخلصانہ مدد کی ہے۔‘

اپیکس کمیٹی کا مرکزی ایجنڈا کیا رہا؟

جمعے کو وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ’اجلاس نے دہشت گردی کے واقعات اور سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے غور کیا۔‘

اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سدباب کے اقدامات پر غور کیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

’ اجلاس نے کراچی پولیس اور سکیورٹی کے لیے ماضی میں منظور ہونے والے فنڈز کی عدم دستیابی کے معاملے پر غور کیا اور ہدایت کی کہ پولیس، سی ٹی ڈی اور سکیورٹی سے متعلق تمام منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں بلا تاخیر دور کی جائیں۔‘
اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور گذشتہ اجلاس میں ہوئے فیصلوں پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
بیان کے مطابق ’اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف، وفاقی وزرا، چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلٰی، وزیراعظم کشمیر، حساس سول وعسکری اداروں کے سربراہان، وفاقی سیکریٹری وزارت داخلہ، صوبائی چیف سیکریٹریز سمیت تمام صوبوں کے آئی جی پولیس اور نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر شریک تھے۔‘

شیئر: