Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ، چین میں تناؤ، ’اس بار کوئی ہاٹ لائن نہیں اور یہ پریشان کن ہے‘

بائیڈن انتظامیہ نے فوجی استعمال کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے جدید چپس کی تجارت کو نشانہ بنا کر چین کو مشتعل کیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
امریکہ اور چین کا خیال تھا کہ ان کے تعلقات کو بہتر کرنے کی ایک موہوم سی امید باقی ہے لیکن اب وہ بھی دم توڑ گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دونوں ممالک میں کم ہوتے تناؤ میں امریکہ کی جانب سے چینی جاسوس غباروں کی دریافت کے بعد ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے۔ اس بات کے بھی کم امکانات ہیں کہ دونوں فریق اپنی جارحیت میں کمی لائیں گے۔
چینی صدر شی جن پنگ صرف ایک مہینے قبل تک امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے دورہ بیجنگ پر استقبال کی تیاری کر رہے تھے، لیکن یہ دورہ غبارے کے واقعے کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔
پر اب چینی صدر کے مزاج میں بھی برہمی نظر آ رہی ہے اور انہوں نے رواں ہفتے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چین کو ’روکنے، گھیراؤ کرنے اور دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
بائیڈن انتظامیہ نے فوجی استعمال کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے جدید چپس کی تجارت کو نشانہ بنا کر چین کو مشتعل کیا ہے اور اگلے برس صدارتی انتخابات کے قریب آتے ہی امریکہ کا لہجہ مزید سخت ہونے کی امید ہے۔

بعض امریکی حکام کا نجی طور پر کہنا ہے کہ غبارے پر سیاستدانوں اور میڈیا کا شور ضرورت سے زیادہ تھا۔ (فوٹو: اے پی)

واشنگٹن نے چین پر نئی پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دی ہے کیونکہ وہ چین پر انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر دباؤ ڈال رہا ہے جن کے مطابق بیجنگ روس کو یوکرین میں اس کی جنگ میں مدد کے لیے فوجی امداد فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر ایوریل ہینس نے بدھ کو سینیٹ میں ایک سماعت کے دوران بتایا کہ چینی صدر شی جن پنگ کا خطاب ’عوامی سطح پر سب سے زیادہ براہ راست (امریکہ پر) تنقید ہے جو ہم نے آج تک ان کی جانب سے دیکھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ’شاید امریکہ کے ساتھ چین کے تعلقات کے بارے میں بیجنگ میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتا ہے، نیز چین کی اندرون ملک اقتصادی ترقی، مقامی ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے چیلنجوں کے بارے میں شی جن پنگ کی بڑھتی ہوئی تشویش کو ظاہر کرتا ہے جن کا اب وہ امریکہ پر الزام لگاتے ہیں۔‘
ایوریل ہینس کے مطابق چین کے پالیسی سازوں کو یہ یقین ہے کہ وہ صرف ’امریکی طاقت اور اثر و رسوخ کی قیمت پر‘ شی جن پنگ کے ایک طاقتور چین کے وژن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
نیشنل انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر نے یہ بھی کہا کہ چینی صدر تائیوان پر اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

 صدر شی جن پنگ نے رواں ہفتے کہا کہ امریکہ چین کو ’روکنے، گھیراؤ کرنے اور دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بعض امریکی حکام کا نجی طور پر کہنا ہے کہ غبارے پر سیاستدانوں اور میڈیا کا شور ضرورت سے زیادہ تھا۔ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ کے پاس اپنا دورہ منسوخ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اس کا تاثر اچھا نہ جاتا۔
تاہم امریکی حکام اس بات پر مایوس رہے کہ چینی حکام مسلسل اس بات سے انکار کرتے رہے کہ یہ غبارہ جاسوسی کے لیے تھا۔
انٹونی بلنکن کا 18 فروری کو میونخ سکیورٹی کانفرنس میں چینی خارجہ پالیسی کے مدر المہام وانگ یی کے ساتھ ایک تناؤ بھی یوا جہاں اعلٰی امریکی سفارت کار نے غبارے اور روس کا معاملہ اٹھایا۔
سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی کے سینیئر فیلو جیکب سٹوکس کا دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایک لمحہ ایسا تھا جب ایسا لگتا تھا کہ بگاڑ کم ہو رہا ہے یا شاید ختم بھی ہو رہا ہے۔‘
’ایسا لگتا ہے کہ کم از کم قریبی مدت میں کچھ انتہائی تخلیقی سفارت کاری کے بغیر (تناؤ میں کمی) ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تعلقات واضح طور پر جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کی وجہ سے بگڑ رہے ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ ہم اس مرحلے سے کیسے نکلیں گے۔‘
خطرات کو کم کرنے کے لیے کچھ کوششیں جاری ہیں۔ پیلوسی کے ریپبلکن جانشین کیون میکارتھی نے تائی پے کے اپنے ممکنہ دورے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کیلیفورنیا میں تائیوان کے صدر سائی انگ وین سے ملنے کا ارادہ کیا ہے۔ انہوں نے مبینہ طور پر تائیوان کے حکام کے کہنے پر اس کا فیصلہ کیا ہے جنہیں چین کی جانب سے شدید ردعمل کا خدشہ تھا۔

امریکہ کی نیشنل انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر ایوریل ہینس نے کہا کہ ’چینی صدر تائیوان پر اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

لیکن افق پر حالات کو کشیدہ کرنے والے بہت سے پوائنٹس موجود ہیں جن میں چین کی مشہور زمانہ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی اور امریکی ایوان نمائندگان کی نئی قائم ہونے والی چین کمیٹی کی سرگرمیاں شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی صدر کمفرٹ ایرو کے مطابق ’سرد جنگ کی تعریف یہ تھی کہ ایک ہاٹ لائن تھی، کہ وہ فون اٹھا سکتے ہیں اور بات کر سکتے ہیں اور اس آگ کو ختم کر سکتے ہیں جو ہم نے دیکھی ہے۔‘
’لیکن اس دفعہ کوئی ہاٹ لائن نہیں ہے اور یہ واقعی پریشان کن ہے۔‘

شیئر: