Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خطرہ مول نہیں لے سکتے‘، نیوزی لینڈ میں سرکاری ڈیوائسز پر ٹک ٹاک بین

مریکہ نے بھی ٹک ٹاک پر مکمل پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نیوزی لینڈ نے اپنے اراکین پارلیمان کے ڈیوائسز پر چین کی سوشل میڈیا ایپلیکیشن ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریڈیو نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ کے مطابق ٹک ٹاک ایپ ان تمام ڈیوائسز پر بند ہو گی جو پارلیمان کے نیٹ ورک سے جُڑے ہیں۔
ٹک ٹاک جو چینی کمپنی بائیٹ ڈانس کی ملکیت ہے، سائبر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کی حکومتوں نے سرکاری ڈیوائسز پر اس کے استعمال کی پابندی عائد کی ہے۔
ایک بیان میں پارلیمینٹری سروس کے چیف ایگزیکٹیو رافیل گونزالیز مونتیرو نے کہا ہے کہ ’موجودہ پارلیمانی ماحول میں خطرات مول لینا قابل قبول نہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ پابندی کا آغاز 31 مارچ سے ہوگا۔
بیان کے مطابق پارلیمنٹری سروس نے پارلیمان کے اراکین اور عملے کو آگاہ کر دیا ہے کہ ’پارلیمان کے نیٹ ورک سے جڑے تمام ڈیوائسز سے ٹک ٹاک ایپلیکیشن ہٹا دی جائے گی۔ تاہم ان کے لیے اس کا انتظام ہو سکتا ہے جو اس کے ذریعے جمہوری فرائض انجام دینا چاہتے ہوں۔‘
یہ فیصلہ ماہرین کے تجزیے اور حکومتی اراکین کی بات چیت کے بعد کیا گیا۔
دی گورنمنٹ کمیونیکیشن سکیورٹی بیورو حکومتی اداروں اور محکموں کو سکیورٹی، پالیسی اور معاملات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ ادارہ ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز، سروسز اور ایپلی کیشنز سے متعلق کوئی مخصوص مشورہ نہیں دیتا کہ ان کو استعمال کرنا چاہیے یا نہیں۔
دوسری جانب امریکہ نے بھی ٹک ٹاک پر مکمل پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے۔
امریکی حکومت نے ٹک ٹاک کو کہا ہے کہ اگر اس کی ملکیتی کمپنی اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں اپنے حصے کو چھوڑتی نہیں تو امریکہ میں اس پر مکمل پابندی عائد ہو جائے گی۔
2020 میں امریکہ نے ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے حکم نامے کے ذریعے اس پر پابندی بھی عائد کی تھی تاہم ٹک ٹاک نے اس حکم نامے کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

شیئر: