Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوجرانوالہ میں وین کو لُوٹنے والے ملزم کیسے گرفتار ہوئے؟

گوجرانوالہ کی پولیس نے 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی پولیس نے 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس سال کی اب تک کی یہ سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔ قانونی وجوہات کی بنیاد پر پولیس نے چار رکنی گینگ کے اراکین کے نام ابھی تک ظاہر نہیں کیے ہیں۔ تاہم ہم سہولت کے لیے یہاں ان کے لیے فرضی نام استعمال کریں گے۔
شیخوپوہ شہر کے گنجان علاقے میں ایک گھر کرائے پر لیا گیا۔ کرائے پر گھر لینے والے شخص آفتاب (فرضی نام) کا تعلق بھی اسی شہر ہے۔ آسانی سے گھر کرائے پر ملنے کے بعد اس نے اپنے تین اورساتھیوں اکرام، واجد اور صغیر کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کر لی۔
گھر کے اندر خصوصی طور پر ایک ٹی وی رکھا گیا جس پر نیٹ فلکس کی ڈرامہ سیریز نارکوس کو یہ تمام افراد بہت شوق سے دیکھتے تھے۔
بعض مقامات پر تو ڈرامہ روک کر اس کے مناظر پر بحث بھی ہوتی تھی۔ یہ چاروں افراد کسی بڑے منصوبے کی تیار کر رہے تھے لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسی گھر میں انہوں نے اسلحہ کا بندوبست کیا اور منصوبہ بندی کی۔

ڈکیتی کی رات:

شیخوپورہ سے گوجرانولہ روڈ پر 13 فروری کی رات نو بجے ایک فراٹے بھرتی کار ایک ویگن کا پیچھا کر رہی تھی۔ جیسے ہی ویگن گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئی۔ تو کار سوار چار افراد نے مزید چند کلومیٹر تک اس کا پیچھا کیا اور پھر اپنی کار واپس شیخوپورہ کی طرف موڑ لی۔
اس کار میں یہ وہی چار افراد تھے جو پچھلے ایک مہینے سے اس واردات کی تیاری میں مشغول تھے۔ 14 فروری کی رات اس وقت انہوں نے اسی ویگن کا تعاقب شروع کیا۔ اور جب یہ ویگن گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئی تو چار کلومیٹر مزید پیچھا کرنے کے بعد یہ کار اس ویگن کے برابر آئی اور دو افراد نے اس کے ٹائروں پر فائرنگ شروع کردی۔
آدھے منٹ سے بھی کم وقت میں ویگن کے چاروں ٹائر پھٹ چکے تھے اور ویگن کے ڈرائیور نے اسے روک لیا۔ چند لمحے سناٹا رہا اس کے بعد چاروں افراد اپنی کار سے نکلے اور ویگن کو گھیرے میں لے لیا۔

ترجمان گوجرانوالہ پولیس کے مطابق 9 کروڑ 74 لاکھ روپے کی رقم چاروں ملزمان سے ریکور کی جا چکی ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

یہ ویگن ایک سکیورٹی کمپنی کی تھی اور شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کئی بینکوں کا کیش لے کر جا رہی تھی۔ اس وقت اس بلٹ پروف گاڑی میں 10 کروڑ روپے کا کیش موجود تھا۔ اور اندر دو سکیورٹی گارڈز کے علاوہ ایک ڈرائیور تھا۔ مسلح افراد نے ایسے تاثر دیا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈز نے کیش ویگن کا دروازہ کھول دیا اور نیچے آ گئے۔
جس کے بعد چاروں افراد نے کیش سے بھرے تھیلے اٹھائے اور اپنی کار کی ڈگی میں رکھے اور واپس شیخوپورہ کی راہ لی۔ پانچ منٹ کے بعد ایک سکیورٹی گارڈ نے بالاخر پولیس کے ایمرجنسی نمبر 15 پر کال کی۔

ناقابل یقین صورت حال:

رات کے دس بجے گوجرانوالہ شیخوپورہ روڑ کے درمیان 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی ہو چکی تھی۔ اتنی بڑی رقم کا سن کر اعلی پولیس افسران بھی جائے واردات پر پہنچ چکے تھے۔ سی پی او گوجرانوالہ ایاز سلیم بھی وقوعہ پر موجود تھے۔ دونوں شہروں کی پولیس الرٹ تھی ناکے بندیاں کی جا چکی تھیں۔ لیکن ڈکیت رقم لے کر غائب ہو چکے تھے۔ سکیورٹی کمپنی کے ایم ڈی شیخ شعیب کی مدعیت میں جائے وقوعہ کے متعلقہ تھانہ تتلے عالی میں اسی وقت درج کر لیا گیا۔
کئی ایسے سوال تھے جو حل طلب تھے کہ ایک بلٹ پروف گاڑی جو کہ ہر طرح سے محفوظ تھی اس کے دروازے کیوں کھولے گئے؟ اتنا زیادہ کیش اس سنسان علاقے سے رات کے اس وقت لے کر جانے کی کیا ضرورت تھی وغیرہ وغیرہ ۔ پولیس کے مطابق یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ اور اس کار کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

پولیس نے ملزم کیسے پکڑے؟

انچارج سی آئی اے عنصر جاوید کے ساتھ چار دیگر افسران اور اہلکاوں کو اس کیس کی تفتیشن سونپ دی گئی تھی۔ عنصر جاوید نے اردو نیوز کو تفتیش سے متعلق بتایا کہ ’ابتدا میں کوئی سِرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا کیشن وین کے ڈرائیور اور گارڈز کی تسلی ہو چکی تھی کہ انہوں نے گھبرا کے دروازے کھولے۔ انہیں شک تھا کہ کہیں ڈاکوؤں کے پاس بھاری اسلحہ نہ ہو۔ یہ علاقہ بھی ایسا تھا کہ دور دور تک کسی کیمرے کا بھی کوئی چانس نہیں تھا پھر ہم نے جیو فینسنگ کا سہارا لیا۔ سکیورٹی گارڈز اور ڈرائیور کے نمبر چل رہے تھے اس وقت اور کون سا نمبر اس جگہ سے ٹاور سے کنیکٹ تھا۔ یہیں سے شروعات ہوئی۔‘

رات کے دس بجے گوجرانوالہ شیخوپورہ روڑ کے درمیان میں 10 کروڑ روپے کی ڈکیتی ہو چکی تھی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’ملزمان بہت شاطراور جدید طریقوں سے واقف تھے لیکن پھر بھی پانچویں روز ان کا سرغنہ آفتاب ہماری گرفت میں آ گیا تھا۔ باقی لوگوں تک پہنچنا مشکل تھا کیونکہ ڈکیتی کے بعد ان چاروں نے آپس میں رقم تقسیم کی اور اس کے بعد ایک دوسرے سے رابطہ نہ کرنے کی قسم اُٹھا رکھی تھی۔‘
اس کیس نے گوجرانولہ کی حد تک پولیس کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سی پی او ایاز سلیم روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی تفتیشی رپورٹ لے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ڈکیتی کے فوری بعد اپنے منصوبے کے مطابق یہ شیخوپورہ میں اس کرائے کے گھر میں اکھٹے ہوئے اور رقم کے چار حصے کیے اور غائب ہو گئے۔ آفتاب نے اپنی رقم اپنے ہی گھر میں فرش کو اکھاڑ کر اس کے نیچے دفن کر دی اور اوپر دوبارہ سیمنٹ سے فرش بنا دیا۔‘
جیوفینسنگ سے آفتاب گرفتار ہو چکا تھا اور اس کے حصے کی رقم بھی اس کے گھر سے برآمد ہو چکی تھی۔ باقی تین ملزم غائب تھے تفتیشی افسر عنصرجاوید بتاتے ہیں کہ ’ہم نے تمام روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے ان تینوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی اور اس کے لیے ہمیں پچاس مختلف جگہوں پر ریڈز کرنی پڑیں یہ اپنی جگہ بدل رہے تھے یہ سب کچھ انہوں نے اس ڈکیتی کا منصوبہ بناتے وقت سیکھا تھا۔ لیکن ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا سرغنہ پکڑا جا چکا ہے۔‘
پولیس نے ایک مہینے کی سر توڑ کوشش کے بعد اکرام کو وہاڑی سے جبکہ واجد اور صغیر کو لاہور سے بالاخر گرفتار کر لیا۔ تمام ملزمان نے لوٹی ہوئی رقم اسی طریقے سے زمین میں چھپائی ہوئی تھی جیسے آفتاب سے رقم ریکور ہوئی تھی۔
ترجمان گوجرانوالہ پولیس کے مطابق 9 کروڑ 74 لاکھ روپے کی رقم چاروں ملزمان سے ریکور کی جا چکی ہے۔ اور بہت جلد شناخت پریڈ کے بعد ملزمان کا چالان عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔

شیئر: