Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں کیا گیا بینکنگ فراڈ جس سے امریکہ و برطانیہ میں کمپنیاں بنائی گئیں

ایف آئی اے میں درج مقدمے کے مطابق نجی بینک سے مجموعی طور پر لون کے 198 کیسز حل کرائے گئے تھے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں شہریوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جھانسہ دے کر نجی بینک سے جعلی سونے کے عوض کروڑوں روپے فراڈ کے کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے خفیہ اطلاع پر کراچی میں ایک سنار کو حراست میں لینے کے بعد ایک دکان پر چھاپہ مار کر اہم دستاویزات، جعلی چیک بکس اور مصنوعی زیورات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق جعل سازی سے وصول کیے گئے پیسے بیرون ممالک منتقل کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے، گولڈ سکینڈل کی تحقیقات میں منی لانڈرنگ بھی سامنے آئی ہے جس پر اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

نجی بینک کا گولڈ سکینڈل کیا ہے؟

ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ سال 2021 میں کراچی کے ضلع شرقی کے ایک نجی بینک میں جعلی سونے کے عوض کروڑوں روپے کے فراڈ کا کیس درج ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر پولیس میں یہ مقدمہ درج ہوا تھا تاہم بعد میں اس کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں ایک نجی بینک کی مینیجر سمیت متعدد افراد شامل تھے جنہوں نے عوام سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر دستاویزات حاصل کیں اور 5 سے دس ہزار روپے انہیں ادا کرنے کے بعد ان کے نام سے جعلی سونے کے عوض بینک سے قرضے لیے۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے کے مطابق نجی بینک سے مجموعی طور پر لون کے 198 کیسز حل کرائے گئے تھے۔

درج مقدمے کے مطابق ملزم کی جعلسازی سے نجی بینک کو40 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

کیا یہ محض فراڈ کا کیس ہے؟

انہوں نے بتایا کہ کراچی کے نجی بینک سے جعلی سونے کے کیس کو ابتدائی طور پر ایک فراڈ کے معاملے کے طور پر دیکھا جارہا تھا لیکن اب تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلسازی سے حاصل کی گئی رقم بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ جس کے بعد ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سیل بھی فعال ہو گیا ہے۔
افسر کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلی گولڈ سکینڈل کے عوض کروڑوں کے فراڈ میں ملوث مرکزی ملزمہ کی امریکہ، برطانیہ میں فرم اور جائیداد موجود ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ سیل نے امریکہ برطانیہ میں قائم اداروں کو تفصیلات ارسال کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں خریدی گئی جائیدادوں کا بھی سراغ لگایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جعل سازی کی مرکزی کردار خاتون نے 106کیسز میں جعلی گولڈ کا درست تخمینہ لگانے والے گرفتار ملزم حسن اختر کو ہنڈا ویزل گاڑی تحفے میں دی تھی جسے اس کیس میں عدالتی کارروائی کے بعد بحکم سرکار ضبط کر لیا گیا ہے جبکہ اس جعل سازی سے کراچی میں خریدی گئی دیگر جائیدادوں کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔

جعلی گولڈ سکینڈل میں کتنے پیسوں کا فراڈ کیا گیا؟

ایف آئی اے حکام نے مزید بتایا کہ رواں ہفتے کراچی کے علاقے گلبہار میں جیولر شاپ پر چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا ہے۔ چھاپہ مار کارروائی گلبہار کے علاقے میں قائم الحاج رحیم داد جیولرز پر کی گئی، کارروائی میں بینک کے لیے مرتب تخمینوں کی دستاویزات، چیک بکس اور مصنوعی زیورات برآمد ہوئے ہیں۔
’جعلی گولڈ اور صارفین کو تخمینوں کے عوض جاری رقم کے اعداد و شمار اور دیگر ریکارڈ بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں درج مقدمے کے مطابق ملزم کی جعلسازی سے نجی بینک کو40 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا۔‘
حکام کے مطابق ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کے ہاتھوں گرفتار ملزم محمد حسن اختر منی لانڈرنگ میں بھی مبینہ طور پر ملوث ہے۔
واضح رہے کہ ملزم سکینڈل کے حوالے سے شارع فیصل اور عزیز بھٹی تھانے اور ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں بھی علیحدہ علیحدہ مقدمات درج ہیں جس میں مجموعی طور پر دو خواتین اور ایک نجی بینک میں گولڈ لان کلیئر کرانے والے افسر گرفتار ہے اور ان ملزم کی بینکنگ کورٹ سے ضمانتیں منسوخ ہو چکی ہیں اور ان کی اپیل پر ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت جاری ہے۔

ایک ملزم سہیل مرزا نجی بینک میں فراڈ کے دوران ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سینیئر صحافی عمران خان جو پہلے دن سے اس کیس کو رپورٹ کر رہے ہیں، نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کیس پاکستان مپں اپنی نوعیت کا ایک الگ کیس ہے۔
’اس میں عام شہریوں کو استعمال کرتے ہوئے جعل سازی کی گئی ہے۔ اس میں کئی کردار اس وقت قانون کے شکنجے میں ہیں جبکہ کئی اہم افراد اب بھی آزاد ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے اس کیس کو کئی زاویوں دیکھا جا رہا ہے۔ اس کیس کا دائرہ کار پولیس کے بعد ایف آئی اے بینکنگ سیل سے اینٹی منی لانڈرنگ سیل تک جا پہنچا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر اسے ایک جعلسازی کے کیس کے طور پر دیکھا گیا جس کی وجہ سے کئی اہم کردار بآسانی قانون کی گرفت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔  
ایف آئی اے کے افسر کے مطابق اس گھپلے کی مرکزی کردار عائشہ مرزا جو بینک منیجر تھی۔ ان کے بھائی سہیل مرزا کو مفرور ملزمان کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ملزم سہیل مرزا نجی بینک میں فراڈ کے دوران ہی امریکہ چلا گیا تھا اور اُن کی بہن نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جھانسہ دے کر شہریوں کو جعلی گولڈ کے عوض نجی بینک سے مجموعی طور پر لون کے 198کیسسز حل کرائے اور ان شہریوں کو پانچ سے 10ہزار روپے دیے۔
’گزشتہ برس عائشہ مرزا نے پولیس مقدمے میں گرفتاری سے قبل امریکہ میں موجود اپنے بھائی کو 98 ہزار ڈالر کی رقم کراچی سے ارسال کی۔ اس رقم سے امریکہ میں جائیداد لی گئی جبکہ اس سے پہلے بھیجے جانے والی رقم سے جائیداد کے ساتھ برطانیہ اور امریکہ میں دو فرمز بنائی گئیں اور ان فرم کے طرز پر کراچی میں دو کمپنیاں ظاہر کی گئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان جعلی کمپنیوں کے اسی بینک میں اکاؤنٹ کھولے گئے جس کی نشاندہی اینٹی منی لانڈرنگ سیل کو ہو گئی ہے اور اس پر علیحدہ سے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

شیئر: