Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کا ایک برس، کیا کھویا کیا پایا: ماریہ میمن کا کالم

پی ٹی آئی اپنی حکومت نہیں بچا سکی، یہاں تک وہ ناکام رہے مگر اس کے بعد ان کا ستارہ عوامی رائے میں برقرار ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مخلوط حکومت کے قیام کو ایک برس مکمل ہوا۔ اس ایک برس میں کوئی خیر کی خبر ڈھونڈنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس لیے سیاسی نعروں اور وابستگی سے قطعِ نظر یہ کہنا خام خیالی ہی ہو گی کہ اس دوران عوام کے لیے کوئی بہتری آئی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں ہے جہاں مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے بھی زائد ہے۔ یہ بھی سرکاری اعداد و شمار ہیں ورنہ اگر بازار کا چکر لگائیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ بات دوگنا اور چوگنا تک پہنچ گئی ہے۔ روپے کی قدر میں اور تیل کی قیمتوں میں تو سیدھا سیدھا حساب ہے کہ دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ کہ ابھی انتہا نہیں آئی اور کوئی دن نہیں جاتا جب دیوالیہ ہونے کی خبر نہ نکلے۔ 
سوال یہ ہے کہ جو حکومت میں ہیں انہوں نے کیا پایا؟ سب سے پہلے تو اگر سال پہلے جائیں تو یہ چہ مگوئیاں عام تھیں کہ یہ حکومت کچھ ہفتوں یا مہینوں کے بعد ختم ہو جائے گی اور اس کے ساتھ نئے الیکشن ہوں گے۔ اب اگر پیچھے مڑ کے دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ ان کا کبھی قبل از وقت حکومت سے علیحدہ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اتحادی یہ سوچ کر آئے تھے کہ جب تک رہ سکے رہیں گے اور یہ کوشش ابھی جاری ہے۔ ظاہر ہے حکومت میں آنے کے بعد اتحاد کی پہلی ترجیح اپنے خلاف مقدمات اور ناپسندیدہ قوانین بشمول نیب، بیرون ملک ووٹنگ اور الیکٹرک ووٹنگ مشین کو ختم کرانا تھا۔ اس پر تو فوری طور پر عمل ہو گیا اور بڑی تسلی سے کیسز ختم ہو گئ ۔ سب سے اہم پیش رفت اہم تعیناتی کے حوالے سے رہی اور یہاں بھی حکومت کے اپنے بقول وہ اس عمل سے خوش اسلوبی سے گزر گئے۔ 
دوسری طرف بہت سے عوامل سے وہ بالکل بھی تسلی سے نہیں گزر سکے۔ معیشت کا تو ذکر ہو چکا۔ پنجاب کی حکومت بنانے میں ان کو وفاق جیسا سکون نہ میسر آ سکا۔ حکومت بنی، پھر گئی، پھر کچھ دیر کے لیے آئی اور پھر آخر میں اسمبلی کے تحلیل کے ساتھ رہی سہی امید بھی رخصت ہوئی۔ اسی دوران ہوئے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جس سیاسی نقصان کی توقع تھی وہ سب کے سامنے آ گیا۔

اتحادی یہ سوچ کر آئے تھے کہ جب تک رہ سکے رہیں گے اور یہ کوشش ابھی جاری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے ساتھ ان کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا خواب بھی پورا نہیں ہو سکا۔ نواز شریف کے کیسز اور نااہلی بھی برقرار ہے اور وہی ترتیب عمران خان کے ساتھ دہرائی بھی نہیں جا سکی۔ اور اب یہ عالم ہے الیکشن ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔ 
اگر بات ہو عمران خان کی تو انہوں نے پے در پے حکومتیں کھو کر اپنے آپ کو اور اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو خوب آزمائش میں ڈالا ہے۔ ایک وقت میں صرف سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے لیے مشہور جماعت اب سڑکوں اور چوراہوں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سامنا کرنے میں ماہر ہو چکی ہے۔
پی ٹی آئی اپنی حکومت نہیں بچا سکی، یہاں تک وہ ناکام رہے مگر اس کے بعد ان کا ستارہ عوامی رائے میں برقرار ہے بلکہ اوپر ہی جا رہا ہے۔ مزاحمت کی سیاست کر کے انہوں نے مزید اپنے لیے رائے عامہ میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی کیا ہے۔ ابھی بھی وقت پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کافی رکاوٹ ہے مگر ان کے اعتماد میں کمی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اعتماد عوام کے ساتھ ان کے رابطے کا مظہر ہوتا ہے اور پی ٹی آئی اس کا عملی ثبوت ہے۔ 
ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی اسی تاثر کا ثبوت ہیں کہ حکومت میں ہونا اب گھاٹے کا سودا ہے اور ان جماعتوں کے اپنے دعوے کے مطابق انہوں نے یہ گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ البتہ پی پی پی اور جے یو آئی نے بہر حال وفاق اور صوبے میں اقتدار کا جھولا لے لیا ہے۔ اس لیے اب بھی وہ سیاسی کشمکش کو تخت لاہور کی طرف ہی دھکیل رہے ہیں۔ بحیثیت مجموعی البتہ کوئی ایسی جماعت ایسی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ گزشتہ برس ان کے لیے فائدے کا سال رہا۔

عمران خان نے پے در پے حکومتیں کھو کر اپنے آپ کو اور اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو خوب آزمائش میں ڈالا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عوام کی حالت تو سب کے سامنے ہے  مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجے میں ایسے پھنسے ہیں کہ نکلنے کی کوئی صورت بھی نہیں۔ ان حالات میں اس سارے سال میں خیر کی خبر ڈھونڈنا مشکل کام ہی ہے اور مزید اندیشہ یہ بھی کہ آگے بھی خیر کا کوئی امکان نہ ہے اور نہ نظر آ رہا ہے۔

شیئر: