Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک پاؤ گوشت اور پوری بھینس: ماریہ میمن کا کالم

بظاہر حکومت کو اپنے آئینی اور جمہوری تاثر کی کوئی پرواہ نہیں ہے (فوٹو: فیس بک عمران خان)
الیکشن باقاعدہ طور پر ملتوی ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن، حکومت اور انتظامیہ نے باقاعدہ لکھ کے دے دیا ہے کہ وہ اکتوبر سے پہلے الیکشن نہیں کروا سکتے۔ حسب توقع معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے اور وہیں سے اس پر حتمی فیصلہ آئے گا۔
اگرچہ عدالتوں سے پہلے بھی واضح طور پر آئین کی عملداری کی ہدایت آ چکی ہے اور ماہرین قانون کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ آئین میں دی گئی 90 دن کی مدت کو بائی پاس کرنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ 
سوال یہاں پر دو ہیں۔ ایک یہ کہ اتنی واضح اور غیر مبہم قانونی شقوں کے ہوتے ہوئے آخر پی ڈی ایم کی حکومت کیوں اپنے آئینی اور جمہوری تاثر کو خراب کرنے پر مصر ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر دوبارہ عدالت کی طرف سے واضح حکم آیا اور اس کے بعد بھی اس پر عمل نہ ہوا تو اس کے بعد کی صورتحال کیا ہو گی؟  
یہ دونوں سوال اس لیے بھی اہم ہیں کہ بظاہر حکومت کو اپنے آئینی اور جمہوری تاثر کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی ان کا عدالت کے احکامات کی تعمیل میں الیکشن کروانے کا کوئی ارادہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر کب تک ہم اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے پوری بھینس قربان کرتے رہیں گے؟ یہ روایتی اور دیہی علاقے میں بولی جانے والی مثال اکثر گفتگو اور تبصروں کی زینت بنتی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ انتہائی اہم اور ملکی اہمیت کے معاملات پر بھی صادق آتی ہے۔ آئین ملکوں کے لیے ہمیشہ رہنے والا معاہدہ ہوتا ہے۔ حکومت اور سیاست آتی جاتی رہتی ہے مگر وہ روایات جو آئین کی روشنی میں طے پاتی ہیں وہ تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔ قانون کی واضح ہدایات کو اپنے عارضی مفاد کے لیے قربان کرنے کو اگر اس مثال سے نہ ترجیح دی جائے تو اور کیا کہا جائے؟
حکومت کی طرف سے جو موقف سامنے آ رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر دلیل سے عاری ہیں۔ اگر ان کے اس موقف کو بھی زیر غور لایا جائے کہ ملک میں تمام انتخابات اکٹھے ہونے چاہیں تو بھی اس کی صرف ایک یہ ہی صورت نہیں کہ صوبائی انتخابات کو آگے کر دیا جائے۔ اس امر کو قومی اسمبلی کے انتخابات کو پہلے منعقد کر کے بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ سوال سیاسی ہے آئینی نہیں مگر اگر حکومت اکٹھے انتخابات میں سنجیدہ ہو تو پی ٹی آئی سے رابطہ کر کے کوئی درمیانی تجویز بھی پیش کر سکتی ہے۔ مگر ان کا تمام تر زور اور وزن یک طرفہ طور پر الیکشن ملتوی کرنے پر ہے۔
اگر بات زور اور زبردستی کی ہو تو پھر پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی مشینری کا بے دریغ استعمال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک ایک رہنما کے خلاف درجنوں کیسز، گھروں پر ریڈ اور سیاسی رکاوٹوں کو تو اب حکومتی وزرا بھی نہیں جھٹلاتے بلکہ ان سب اقدامات کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر اون بھی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس سے پیشتر اپوزیشن کے سیاستدانوں کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں مگر ان کی طرف سے وہی طرز عمل دہرانے بلکہ اس کو کئی لیول اوپر لے جانے سے ملک کی سیاست میں کون سی بہتری پیدا ہو گی اس کے بارے میں تجربہ کار اور جہاں دیدہ سیاستدان ہی بتا سکتے ہیں۔

سیاست دانوں سے یہ توقع ہے کہ وہ جمہوری روایات کو اپنے عارضی فائدے کے لیے قربان نہیں کریں گے (فوٹو: مسلم لیگ ن)

آخر میں بات پھر ہے اپنے عارضی فائدے اور نظام کے دائمی نقصان کی، اور یہ بات بھی وہی پرانی ہے کہ ایک پاؤ گوشت کے لیے پوری بھینس ہی جاتی نظر آ رہی ہے۔
سیاست دان حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ وہ الیکشن جیتتے بھی ہیں اور الیکشن ہارتے بھی ہیں۔ ان کا نقصان ہوتا بھی ہے اور وہ کبھی نقصان کرتے بھی ہیں مگر ایک ایسے ملک میں جہاں مارشل لا کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ جہاں  طویل عرصے تک آئین کی معطلی کی مثالیں موجود ہے وہاں پر کم از کم سیاست دانوں سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ آئینی اور جمہوری روایات کو اپنے عارضی فائدے کے لیے قربان نہیں کریں گے۔ 

شیئر: