Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی شام پہنچ گئے، بشارالاسد سے ملاقات کریں گے

2010 کے بعد پہلی بار ایرانی سربراہ شام پہنچے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی بدھ کو شام کے دارالحکومت دمشق پہنچ گئے ہیں۔ یہ دہائیوں سے جنگ زدہ ملک کا ایرانی سربراہ کی جانب سے پہلا دورہ ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مارچ 2011 میں بغاوت کے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کے بعد تہران صدر بشارالاسد کی حکومت کا حامی رہا ہے اور صورتحال کو ان کے حق میں کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ایران نے بے شمار فوجی مشیر اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے حمایت یافتہ جنگجو مشرق وسطٰی سے شام بھجوائے تاکہ وہ بشارالاسد کی جانب سے لڑیں۔
حالیہ چند برس کے دوران شامی حکومت ایران اور روس کی مدد سے ملک کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب رہی ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ دو روزہ دورے کے دوران ابراہیم رئیسی کی بشارالاسد سے ملاقات کا بھی امکان ہے جس میں روابط کو بڑھانے کے کئی بڑے معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔
عرب ٹی وی چینل المیادین کو انٹرویو دیتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے تعمیر نو اور جنگ کی وجہ سے ملک چھوڑنے والوں کی واپسی پر زور دیا۔
شام پہنچنے والے ایرانی صدر کے ساتھ اعلٰی سیاسی و کاروباری شخصیات بھی موجود ہیں۔ ان کا استقبال دمشق ایئرپورٹ پر شام کے وزیر معیشت سمیر الخلیل نے کیا۔
ایرانی صدر مذہبی مقامات کا بھی دورہ کریں گے جبکہ ایک نامعلوم فوجی کے مقبرے پر بھی جائیں گے جن کو شامی فوجیوں نے جنگ کے دوران قتل کیا تھا۔
اس سے قبل 2010 میں اس وقت کے صدر محمود احمد نژاد نے شام کا دورہ کیا تھا۔  ابراہیم رئیسی کا دورہ 2010 کے بعد ایرانی صدر کا پہلا دورہ ہے تاہم بشارالاسد نے لڑائی کے دوران بھی ایران کے دو دورے کیے جن میں ایک پچھلے سال مئی کے دوران ہوا تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر کا یہ دورہ ایران کے وزیر شاہرات و شہری ترقی مہرداد بزپاش کے دورے کے ایک ہفتے بعد ہو رہا ہے۔ 
 
ایرانی صدر کا دورہ شام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی دمشق کے دورے کیے۔

مارچ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کے کھولنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب، نو نیوز)

شام کے وزیر خارجہ نے بھی اپریل میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا دورہ کیا جو 2012 کے بعد پہلا دورہ تھا جب دونوں ممالک کے تعلقات منقطع ہوئے تھے۔
مارچ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کے کھولنے کا معاہدہ ہوا تھا۔
شام میں مظاہرین کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد عرب حکومتوں کی جانب سے بشارالاسد حکومت کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور تعلقات میں خرابی کا نتیجہ شام کے 2011 میں عرب لیگ سے انخلا کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
لڑائی شروع ہونے سے لے کر اب تک پانچ لاکھ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ جنگ سے قبل شام کی آبادی دو کروڑ 30 لاکھ تھی۔
شام میں ایرانی فوج کی موجودگی اسرائیل کے لیے ایک بڑی تشویش رہی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے حالیہ برسوں کے دوران حکومت کے زیرکنٹرول حصوں پر سینکڑوں بار حملے کیے گئے ہیں تاہم شاذونادر ہی ان کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
2023 کے آغاز سے شامی حکام نے درجنوں کارروائیوں کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے جن میں منگل کے روز کا وہ تازہ ترین حملہ بھی شامل ہے جو شمالی شہر حلب کے بین الاقوامی ائیرپورٹ پر کیا گیا جس کے بعد اس کو بند کر دیا گیا تھا۔

شیئر: