Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سو ایکڑ پر فصل کاشت کرنے والی خاتون زمیندار سپنا کویتا

جب بھی آپ کسی کاشت کار یا کسان کے بارے میں تصور کرتے ہیں تو ذہن میں ایک اونچی پگ، لمبی، گھنی اور تاؤ دی ہوئی مونچھوں اور کلف لگے سفید کپڑوں والا ایک بندہ جو اس حلیے میں کھیتوں کے درمیان یا کسی ڈیرے پر بیٹھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
لیکن پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والی باہمت خاتون کسان سپنا کویتا اوبرائے نے اس تشخص کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ 
وہ روزانہ صبح سویرے تیار ہو کر گھر سے نکلتی ہیں اور اپنے کھیتوں کا رخ کرتی ہیں، جہاں ان دنوں انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے لائے گئے بیج سے کئی اقسام کی فصل پک کر کٹنے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ 
100 ایکڑ اراضی کی مالک سپنا کویتا اوبرائے کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ان کے دادا نے 1922 میں منڈی بہاؤالدین کے علاقے بوسال میں یہ زمین خریدی اور کاشت کاری شروع کر دی۔ یہ سلسلہ اب تیسری نسل تک پہنچا ہے تو یہ ذمہ داری انھوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ ان کے بھائی بھی زمیندار ہیں جبکہ بہن مویشی پالتی ہیں۔
سپنا کویتا اوبرائے اپنے کھیتوں کی خود نگرانی کرتی ہیں اور ہر مرحلے پر بہتر سے بہتر پیداوار لینے کے لیے فیصلے بھی خود ہی لیتی ہیں۔ 
انھیں مختلف فصلوں بالخصوص گندم کے نت نئے بیج جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’ 100 ایکڑ زمین میں 50 ایکڑ پر گندم، 40 ایکڑ پر کینو کا باغ، 5 ایکڑ آم کا باغ جبکہ باقی زمین پر لہسن، گنا، چارہ جات اگا رکھے ہیں۔‘ 
انھوں نے بتایا کہ ’کاشت کاری کے علاوہ میں فیشن ڈیزائنر ہوں، اسی وجہ سے کئی ایک بزنس چیمبرز کی رکن ہوں۔ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ان کے ڈیزائن کی نمائشیں لگتی ہیں۔ جاتی تو میں نمائش کے لیے ہوں لیکن میری دلچسپی جہاں بھی جاؤں وہاں کی کاشت کاری میں ہوتی ہے۔ انڈیا گئی تو وہاں سے بیج لائی، میکسیکو گئی تو وہاں سے کاشت کاری کے تجربات لے کر جنھیں آزمانے سے بہت فائدہ ہوا۔‘ 

سپنا کویتا اوبرائے نے زراعت سے متعلق  بیرون ملک دورے بھی کیے ہیں۔ (فوٹو: سپنا کویتا اوبرائے)

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کی مختلف زرعی یونیورسٹیوں کے علاوہ انڈین کسان سربجیت سنگھ نے انھیں مختلف اقسام کی گندم کے بیج بطور تحفہ دیے ہیں۔ اس دفعہ جو نئے بیج اگائے ہیں ان میں 303، 202، 826، 327، 222 شام ہیں۔‘ 
سپنا کویتا اوبرائے عام کسانوں کی طرح صرف فصل اگا کر اس سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے پر ہی یقین نہیں رکھتیں بلکہ انھیں گندم کے بیج کی ورائٹیوں کی خاصیت، ان کے اجزائے ترکیبی، ان کے اگنے سے لے کر پکنے تک کے مراحل اور ضروریات کا بھی مکمل علم ہے۔ وہ کالی گندم کے ساتھ ساتھ جو اور گندم کے ملاپ سے پیدا ہونے والی شوگر فری گندم بھی اگا رہی ہیں۔ 
انھوں نے بتایا کہ ’ویک ایک کلو بیج لاتی ہوں۔ اسے الگ الگ بوتی ہوں۔ پھر اس میں اضافہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اگا کر مارکیٹ میں فروخت کرتی ہوں۔ اگلے سال انڈیا سے لائے ہوئے یہ بیج مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔ جس سے فصل کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں سپنا کویتا اوبرائے نے کہا کہ ’اس پار سے آنے والی گندم اس پار کے کسانوں کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے کسانوں کا فائدہ ہو رہا ہے۔ اس سے بڑی نیکی کیا ہوگی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وہ دیہی ماحول میں غیرمسلم ہونے کے ساتھ ساتھ خاتون ہو کر کاشت کاری کر رہی ہیں تو انھیں ایسا کرتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس پر سپنا کویتا اوبرائے نے کہا کہ ’یہ سوال مجھ سے ہر جگہ ہی پوچھا جاتا ہے لیکن میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ کسان ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ میرے کسان بھائی میری عزت بھی کرتے ہیں بلکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ ہماری بہن ہمارے لیے نت نئے بیج لا رہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’مزدور طبقہ تو مرد کاشت کاروں اور نگرانوں کے ہوتے ہوئے بھی ڈنڈی مارتا ہے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ کوئی بھی اپنا کام اچھے طریقے سے نہیں کرتا۔ اگر آدھے لوگ بھی اپنا کام اچھے طریقے سے کرنا شروع کر دیں تو ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔‘ 

سپنا کویتا اوبرائے کے مطابق کسان غیرت مند اور خوراک کے شعبے کا فرنٹ لائن سپاہی ہوتا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

سپنا کویتا اوبرائے نے بتایا کہ ’جب میرے دادا نے 1922 میں زمین خریدی تو اس میں پانچ ایکڑ آموں کا باغ بھی تھا۔ ہم نے اس باغ کو برقرار رکھا اور سو سال گزر جانے کے باوجود وہ پھل دے رہا ہے۔ اس باغ کو مصنوعی کھادوں سے مکمل طور پر پاک رکھا گیا ہے۔‘ 
وہ دوسری فصلوں پر بھی زیادہ کھاد ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سال میں صرف ایک بوری یوریا اور ایک بوری ڈی اے پی استعمال کرتی ہوں اور اگر ضرورت پڑے تو پوٹاش استعمال کرتی ہوں۔ زمین کی طاقت کو برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے سبز کھاد کاشت کرتے ہیں جن میں مونگی، جنتر گوارا وغیر شامل ہیں۔ ان کا پھل اتار کر تنے بطور کھاد زمین میں رہنے دیے جاتے ہیں تاکہ یہ کھاد میں بدل کر زمین کو طاقت بخشیں۔
دیگر کسانوں کی طرح سپنا کویتا اوبرائے بھی سمجھتی ہیں کسان جتنی محنت کرتے ہیں انھیں اس تناسب سے آمدن حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسانوں کو کاشت کاری کے ذریعے فصلوں میں پیداوار بڑھانے کے حوالے سے مکمل آگاہی ہی نہیں۔ متعلقہ ادارے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ حکومتیں بھی سارا سال سوئی رہتی ہیں اور جب کسان اپنی محنت کا پھل لینے کے لیے فصل اپنی مرضی سے بیچنا چاہتا ہے تو اس کو دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جائیں گے۔ 
انھوں نے کہا کہ ’کسان غیرت مند اور خوراک کے شعبے کا فرنٹ لائن سپاہی ہوتا ہے۔ وہ گندم ذخیرہ نہیں کرتا بلکہ گندم ذخیرہ کرنے والا تو مڈل مین ہوتا ہے۔ حکومت نے اگر چھاپے مارنے ہیں تو وہ ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مارے۔ کسان کے گھر پر چھاپے پڑیں گے تو وہ فصلیں کاشت کرنا ہی چھوڑ دیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ زمیں ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنانے والوں کو بیچیں گے۔ آج کا نوجوان تو ویسے ہی زمین بیچ کر بیرون ملک جانا چاہتا ہے۔ حکومت کو اس بارے میں سوچنا ہو گا۔‘ 

شیئر: