Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دلبر حسین: زمینداری سے پی ایس ایل تک

6 دسمبر کو پی ایس ایل فائیو کی ڈرافٹنگ میں دلبر حسین کا نام لاہور قلندرز کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔
پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے دور دراز گاؤں 90 ر- ب چٹی سے تعلق رکھنے والے دلبر حسین کو چند ماہ پہلے تک زمینوں پر کام کرتا دیکھ کر شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن یہ لڑکا پاکستان سپر لیگ کھیلنے کے لیے منتخب ہو جائے گا۔
ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے 28 سالہ فاسٹ بولر دلبر حسین کے والدین بھی عام دیہی والدین کی طرح اپنے صاحبزادے کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنانا چاہتے تھے مگر دلبر کا دل تھا کہ پڑھائی سے زیادہ کرکٹ میں لگتا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ میڑک بھی پاس نہ کر سکے اور والدین نے انہیں زمین سنبھالنے کی ذمہ داری سونپ دی۔
زمینداری سے ان کی جان بالآخر 6 دسبمر کے دن چھوٹی جب پی ایس ایل فائیو کی ڈرافٹنگ ہوئی اور ان کا نام لاہور قلندرز کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔

 

’یہ میرے لیے ایک خواب کے حقیقت ہونے جیسا ہے۔ میں کیمپ میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، جن کو کبھی ٹی وی پر دیکھتا تھا تو یقین نہیں ہوتا کہ یہ سب حقیقت ہے، یوں لگتا ہے جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔‘
دلبر حسین کا اس مقام تک پہنچنے کا سفر بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاہور قلندرز کا حصہ بننے کے لیے ٹرائلز دینے سے قبل انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ہارڈ بال کرکٹ نہیں کھیلی۔
ان کے بقول ’میں نے بچپن سے ہی ٹیپ بال کرکٹ کھیلی ہے، ٹرائلز کے دوران پہلی بار ہارڈ بال ہاتھ میں پکڑی اور گیند کرائی تو سپیڈ 140 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تھی، عاقب بھائی (عاقب جاوید) کو میری بولنگ اچھی لگی تو بس یہیں سے سفر شروع ہو گیا۔'
ان کے مطابق وہ لاہور قلندرز کا حصہ بننے سے قبل چھ ایکٹر زمین پر کھیتی باڑی کرتے تھے جس میں سے چار ایکڑ زمین انہوں نے ٹھیکے پر لے رکھی  تھی جبکہ دو ایکڑ ان کے خاندان کی ملکیت تھی۔
’پڑھائی میں نالائق تھا اس لیے عموما والدین برا بھلا کہتے تھے، وہ پوچھتے تھے کہ کرکٹ میں کیا رکھا ہے، اس کا مستقبل کیا ہے۔۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران میں بھی زمینداری سے تنگ آگیا تھا اور یورپ جا کر محنت مزدوری کرنا چاہتا تھا۔‘

دلبر حسین کے مطابق قلندرز کا حصہ بننے کے لیے ٹرائلز دینے سے قبل انہوں نے کبھی ہارڈ بال کرکٹ نہیں کھیلی۔

دلبر حسین لاہور قلندرز کے ڈویلپمنٹ سکواڈ کے ساتھ لیگ میچز کھیلنے کے لیے گذشتہ برس آسٹریلیا کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی تھی جو لاہور قلندرز کی سینئر ٹیم میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ بنی۔
والدین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دلبر حسین نے بتایا کہ ان کے والد وفات پا چکے ہیں اور ان کی والدہ کو کرکٹ کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔
’میری والدہ کو سمجھ نہیں تھی کہ کرکٹ کیا ہے، آسٹریلیا گیا تو انہوں نے بھی میچوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ ایک میچ میں مجھے زیادہ سکور لگ گیا تو پریشانی کی وجہ سے والدہ کا جسم کانپنا شروع ہو گیا، وہ رونے لگ گئیں کہ اب کیا ہوگا۔ اس کے بعد میں ان کو میچ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔‘

دلبر حسین لاہور قلندرز کے ڈویلپمنٹ سکواڈ کے ساتھ لیگ میچز کھیلنے کے لیے گذشتہ برس آسٹریلیا کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

دلبر حیسن کی والدہ پروین اختر کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کا بیٹا اس مقام تک پہنچا ہے۔
’سچ پوچھیں تو مجھے لگتا نہیں تھا کہ وہ یہاں تک پہنچنے گا، اس کا بڑا بھائی ٹیچر بھرتی ہوگیا تھا تو میں ٹینشن لیتی تھی کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہم اس کو کہتے تھے کہ کوئی کام سیکھ لو تو کہتا تھا کہ میرے ہاتھ میں ہنر ہے۔ اللہ کا شکر ہے یہ کامیاب ہو گیا ہے۔'
ان کے مطابق جب دلبر کو چوکا چھکا لگتا ہے تو بہت ٹینشن ہوتی ہے۔ 'مجھ سے نہیں دیکھا جاتا کہ اسے چوکا چھکا لگے، میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔ بس میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ اسے مزید کامیابی دے۔'

شیئر: