Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شیریں مزاری اور شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری زیر بحث

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ’تمام گرفتاریاں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل میں لائی جا رہی ہیں۔‘ (فوٹو: فیس بُک)
پاکستان میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد ملک بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر منگل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں ڈاکٹر شیریں مزاری اور شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاریاں زیر بحث ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت ڈاکٹر شیریں مزاری کی نظر بندی کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم انہیں اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد پولیس کی جانب سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ’میں سیکریٹریٹ تھانے گئی اور ان (اپنی والدہ) کو چیختے ہوئے سُنا۔ مرد افسر نے مجھے مارا اور فلور پر گھسیٹا۔‘
ایمان حاضر مزاری کی ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اختر مینگل نے اس حوالے سے کہا کہ ’ناقابل قبول۔ خواتین کا تعلق کسی بھی سائیڈ سے ہو انہیں سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ میں اس عمل کی مذمت کرتا ہوں اور حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کو رہا کیا جائے۔‘
تاہم اسلام آباد پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر ایمان حاضر مزاری کے دعوے کو ’پروپگینڈا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی تشدد یا ہاتھا پائی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘
پولیس کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ’تمام گرفتاریاں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل میں لائی جا رہی ہیں۔‘
پی ٹی آئی کی جانب سے بھی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارٹی رہنما اور سابق وزیر شہریار آفریدی کو ان کی اہلیہ سمیت ان کے گھر سے مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی شیئر کی جا رہی ہے جس کے بارے یں صارفین کا کہنا ہے کہ یہ شہریار آفریدی کے گھر پر چھاپے کے دوران بنائی گئی تھی۔

شیئر: