Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زلمے ’سفارتکار ہیں یا سی آئی اے کے سٹیشن چیف‘

زلمے خلیل زاد ستمبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک امریکہ کے افغانستان میں نمائندہ خصوصی رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی میڈیا میں خبروں میں ہیں جس کی وجہ ان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں بیانات ہیں۔
جمعے کی صبح بھی زلمے خلیل زاد کی جانب سے پاکستان کی فوج کے سربراہ کے سیالکوٹ گیریژن کے دورے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے آرمی چیف کے انداز تخاطب پر تبصرہ کیا تھا۔
واضح رہے جنرل عاصم منیر کچھ دن پہلے سیالکوٹ گیریژن کے دورے پر ضرور گئے تھے لیکن جو بات زلمے خلیل زاد کہہ رہے ہیں اس کے سچ ہونے کے شواہد موجود نہیں۔
پاکستان کی سیاست 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور پُرتشدد مظاہروں کے بعد تلاطم کا شکار ہے اور ایسے میں زلمے خلیل زاد اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے ملک میں ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر ضیا اللہ لانگو نے لکھا کہ ’زلمے خلیل زاد آپ کی ٹویٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے کم نہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’پروفیشنلز کی قیادت میں ہمارے ادارے ہر طرح کی سازش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

تجزیہ کار ضیغم خان لکھتے ہیں کہ ’زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی قیادت کی میٹگز کے حوالے سے کونفیڈنشل رپورٹس سے واقف ہیں۔ ایک سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں ایسی انٹیلیجنس کیوں چاہیے اور اس سطح کی انٹیلیجنس ان سے کون شیئر کر رہا ہے؟ کیا ان کا کردار ایک سفارتکار کا ہے یا سی آئی اے کے سٹیشن چیف کا؟‘

صحافی سید وقاص شاہ لکھتے ہیں کہ ’خلیل زاد صاحب پاکستان میں کسی کو آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں اس کے بعد جو آپ نے افغانستان کے ساتھ کیا۔ یعنی کہ اسے برباد کردیا، برائے مہربانی اپنے کام سے کام رکھیں۔‘

افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے لکھا کہ ’جبکہ آپ اس حوالے سے بڑ بڑا رہے ہیں کہ ہماری افواج کی قیادت کسے کرنی چاہیے تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس موضوع پر آپ کی قابلیت کتنی ہے؟‘
انہوں نے مزید پوچھا کہ ’کیا یہ قابلیت آپ کے اس تجربے کا نتیجہ ہو جو آپ نے افغانستان میں کیا اور ملک کو طالبان کے حوالے کرکے سرینڈر کر دیا۔‘

خیال رہے زلمے خلیل زاد ستمبر 2018 سے اکتوبر 2021 تک امریکہ کے افغانستان میں نمائندہ خصوصی رہے ہیں اور ان ہی کو امریکی حکومت نے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کی زمہ داری دی تھی۔

شیئر: