Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایلون مسک کے ’نیورالنک‘ کو انسانی دماغ میں امپلانٹ کرنے کی اجازت

ٹیکنالوجی کا پہلا تجربہ بندروں پر کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی ارب پتی ایلون مسک کے ملکیتی سٹارٹ اپ ’نیورالنک کو انسانی دماغ میں امپلانٹس کا تجربہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو نیورالنک نے کہا کہ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے اس کے پہلے انسانی طبی مطالعے کے لیے کلیئرنس اس کی ٹیکنالوجی کے لیے ’ایک اہم پہلا قدم‘ ہے، جس کا مقصد دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ براہ راست انٹرفیس دینا ہے۔
نیورالنک نے ٹوئٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ہم یہ بتاتے ہوئے بہت پُرجوش ہیں کہ ہمیں اپنی پہلی انسانی طبی تحقیق شروع کرنے کے لیے ایف ڈی اے کی منظوری مل گئی ہے۔‘
نیورالنک کے مطابق کلینیکل ٹرائل کے لیے بھرتی ابھی شروع نہیں کی گئی۔
ایلون مسک نے دسمبر میں سٹارٹ اپ کی جانب سے ایک پریزنٹیشن کے دوران کہا تھا کہ نیورالنک امپلانٹس کا مقصد انسانی دماغوں کو کمپیوٹر کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے قابل بنانا ہے۔
انہوں نے اُس وقت کہا تھا کہ ’ہم اپنے پہلے انسانی (امپلانٹ) کی تیاری کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ ہم کسی انسان میں ڈیوائس لگانے سے پہلے انتہائی محتاط رہنا چاہتے ہیں کہ یہ اچھی طرح کام کرے گا۔‘
مختلف تجربات کے ذریعے نیورالنک پروٹوٹائپ بندروں کے دماغ میں لگایا جا چکا ہے اور اس کی ساخت ایک سکے جتنی ہے۔
نیورالنک کی پریزنٹیشن میں دکھایا گیا کہ ایسے بندر اپنے ’امپلانٹ‘ کے ذریعے ویڈیو گیمز ’کھیل‘ رہے ہیں اور سکرین پر کرسر کو گھما رہے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کو سُور میں بھی آزمایا گیا ہے۔
ایک ابتدائی تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سرجیکل روبوٹ کی مدد سے کھوپڑی کا ایک ٹکڑا نیورالنک ڈسک سے تبدیل کیا جاتا ہے، اور اس کے تاروں کو دماغ میں داخل کیا جاتا ہے۔

انسانی دماغ سے منسلک کی جانے والی چِپ ایک سکے جتنی ہو گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایلون مسک کے مطابق ڈسک اعصابی سرگرمی کو رجسٹر کرتی ہے جیسے عام بلوٹوتھ ڈیوائس وائرلیس سگنل کے ذریعے معلومات کو سمارٹ فون تک پہنچاتی ہے۔
مسک کا کہنا تھا کہ یہ دراصل آپ کی کھوپڑی میں کافی اچھی طرح سے فٹ بیٹھتا ہے۔ ’یہ آپ کے بالوں کے نیچے ہو سکتا ہے اور آپ کو معلوم نہیں ہو گا۔‘

شیئر: