Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے ساحل پر 36 فٹ لمبی نیلی وہیل مردہ حالت میں پائی گئی

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحل سے دیوہیکل وہیل مردہ حالت میں ملی ہے جس کی لمبائی 36 فٹ اور وزن 15 سے 20 ٹن تک بتایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نیلی وہیل ہے جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے ۔
سمندری اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنےوالی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئیر ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقامی ماہی گیروں نے جمعے کو بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے جیونی سے تقریباً چھ کلومیٹر بندری کے مقام پر بڑی جسامت والی اس وہیل کے بارے میں اطلاع دی تھی جس پر ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم نے جاکر اس کا معائنہ کیا۔
معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ یہ مادہ بلیو وہیل ہے جس کی موت کی وجہ کا اب تک تعین نہیں ہوسکا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے عملے نے سمندر میں جاکر وہیل کی پیمائش کی اور ڈی این اے کے تجزیے کے لیے نمونے جمع کرکے کراچی بجھوادیے ہیں۔
سدھیر احمد نے بتایا کہ مچھلی ساحل سے کچھ دور ابھی تک پانی کے اندر ہے اور توقع ہے کہ اس کی باڈی لہروں کی مدد سے آج یا کل تک ساحل کے بالکل کنارے تک پہنچ جائے گی جس کے بعد اس کا مزید تفصیلی معائنہ کیا جائےگا۔
انہوں نے بتایا کہ وہیل کی پیمائش کی تو اس کی لمبائی 36 فٹ تھی۔ لمبائی کے حساب سے ہم نے وزن کا اندازہ 20 سے 25 ٹن لگایا ہے ۔
آبی حیات کے ماہر اور ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ بلیو وہیل ہے جوروئے زمین پر سب سے بڑا اور قدیم جاندار مانا جاتا ہے ۔ اس کی لمبائی 100 فٹ تک جاسکتی ہے ۔اس مچھلی کا مردہ حالت میں ملنا یقینا ًبری خبر ہے۔’یہ پاکستانی پانیوں میں پائے جانے والے وہیل کی تین اقسام میں سے ایک ہے۔ باقی اقسام میں ہمپ بیک اور برڈوس شامل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی تحقیق نہیں ہوئی جس سے اس مچھلی کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے لیکن ایک محتاط اندازے سے اس کی تعداد سو سے زائد نہیں ہوسکتی ۔یہ دنیا بھر اور پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دو چار ہے اس لئے شازو نادر ہی نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وہیل  پاکستان کے ساتھ ساتھ خطے کے باقی متعدل اور گرم پانیوں میں بھی پائی جاتی ہے اور ایران، عمان اور سعودی عرب تک سفر کرتی ہے۔
محمد معظم خان کے مطابق عموماً ایسی بڑی مچھلیوں اور وہیل کی موت ماہی گیروں کے جال میں پھنسنے یا پھر کشتیوں سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے کہ اس بلیو وہیل کی موت کیسی ہوئی کیونکہ اس کے جسم پر کسی قسم کے زخم کے نشان نہیں پائے گئے۔
ماہر آبی حیات نے مزید بتایا کہ مردہ بلیو وہیل کا پیٹ پھولا ہوا ہے اس کے سڑنے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ پیٹ پھٹنے کی صورت میں علاقے میں بدبو پھیل سکتی ہے ۔

وہیل کی پیمائش کی تو اس کی لمبائی 36 فٹ تھی (فوٹو: ڈبلیو ڈبلیو ایف)

اکتوبر 2021 میں گوادر ہی کے علاقے اورماڑہ اور کلمت کھور کے درمیان سمندر میں برڈوس وہیل مردہ حالت میں ملی تھی۔ ماہی گیروں نے اس کے پیٹ کو کاٹ کر اس میں سے عنبر نکالنے کی ناکام کوشش کی جو بہت قیمتی ہے۔ اسی سال یمن میں ماہی گیروں کو مردہ وہیل سے خوشبودار عنبرگرس ملا تھا جس کی مالیت پاکستانی روپوں میں 25 کروڑ سے زائد تھی۔
معظم علی خان کے مطابق ماہی گیروں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مردہ وہیل کے پیٹ کو کاٹ کر اس میں سے عنبر نکالنے کے لیے غیر ضروری طور پر کوشش نہ کریں کیونکہ یہ ایک لا حاصل عمل ہے ۔عنبر صرف سپرم وہیل کے معدے میں پایا جاتا ہے۔
جیونی میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کا ایک انفارمیشن اینڈ کنزورویشن سینٹر بھی ہے جس میں ایک بڑی وہیل کا ڈھانچہ رکھا گیا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر احمد نے زور دیا ہے کہ حکومت مردہ وہیل کے ڈھانچے کو محفوظ کرکے اس سینٹر میں رکھا جائے تاکہ اسے بعد میں مطالعاتی اور تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مردہ بلیو وہیل کی باقیات اور ڈھانچے کو محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جی ڈی اے ترجمان کے مطابق ڈائریکٹر جنرل جی ڈی اے مجیب الرحمٰن قمبرانی نے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے اور ماہر آبی حیات عبدالرحیم بلوچ کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کردی ہیں۔
سمندری علوم کے ماہر عبدالرحیم بلوچ  نے بتایا کہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے 2018 تک نیلی وہیل کو خطرے سے دوچار کے طور پر درج کیا ہے۔ اسے جہازوں کے حملے، آلودگی، سمندری شور اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد انسانی ساختہ خطرات کا سامنا ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے اس جانور کو نمائش کے لیے محفوظ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ اسے درپیش خطرات سے محفوظ بنانے کے لیے عام لوگوں میں مزید آگاہی پیدا کی جا سکے۔

شیئر: