Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر سب سے پہلے قدم کس کوہ پیما نے رکھا تھا؟

ایڈمنڈ ہلری اور ٹینزنگ نورگے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پہلے کوہ پیما تھے۔ فوٹو: اے اپی
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو پہلی مرتبہ سر کرنے میں کامیابی ستر سال قبل حاصل ہوئی تھی جب نیوزی لینڈ کے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلری اور نیپالی ٹینزنگ نورگے شرپا نے 1953 میں اس پر قدم رکھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی مہم کے باعث یہ شخصیات دنیا بھر میں مشہور ہوئیں اور کوہ پیمائی کے شعبے کو ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے 8 ہزار 849 میٹر بلند چوٹی کو سر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس سے پہاڑوں پر رش اور اس کے باعث آلودگی کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔
ابتدا میں اس چوٹی سے صرف برطانوی نقشہ ساز ہی واقف تھے جنہوں نے اسے ’چوٹی پندرہ‘ کا نام دیا ہوا تھا۔
بعد ازاں سنہ 1850 کی دہائی میں یہ چوٹی ’دنیا کے بلند ترین مقام‘ کے طور پر جانی گئی اور 1865 میں سرویئر جنرل آف انڈیا سر جورج ایورسٹ کے نام سے منسوب ہو گئی۔
نیپال اور چین کی سرحد پر واقع اس چوٹی کو تبت کی زبان میں چومو لنگاما کہتے ہیں یعنی ’دنیا کی دیوی ماں‘ اور نیپالی میں ساگر ماتھا یعنی ’آسمان کی چوٹی‘ کہلائی جاتی ہے۔
نو مرتبہ کی کوشش کے بعد سنہ 1953 میں کوہ پیما اس بلند ترین چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ پہلے 600 کو پیماؤں کو اس پر چڑھنے میں بیس سال کا عرصہ لگا تھا۔
لیکن اب تجربہ کار گائیڈز اور مہم جو کمپنیوں کے باعث ہر سال ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کامی نیتا شرما ’ایورسٹ مین‘ 28 مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نیپال کے پہاڑی علاقے لکلا میں سنہ 1964 میں ہوائی پٹی تعمیر ہونے سے بیس کیمپ تک مہینوں پر محیط سفر آٹھ دنوں کا رہ گیا ہے۔
اس کے علاوہ ماضی کے مقابلے میں اب کوہ پیمائی کا ساز و سامان بھی انتہائی ہلکا ہو گیا ہے،  آکسیجن سلینڈر بھی فوری طور پر دستیاب ہوتے ہیں اور ٹریکنگ ڈیوائسز کے باعث مہم جوئی قدرے محفوظ ہو گئی ہے۔
کسی بھی ناگہانی صورتحال سے دوچار ہونے کی صورت میں کوہ پیماؤں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی بچایا جا سکتا ہے۔
ہر سال کوہ پیمائی کے سیزن میں نیپالی گائیڈ دیگر کوہ پیماؤں کے لیے چوٹی تک پہنچنے کا راستہ رسیوں کے ذریعے تیار کرتے ہیں جو انتہائی مشکل کام ہے لیکن پیشہ ور کوہ پیماؤں کے لیے ایک بڑی سہولت ہے۔
ہمالیہ پر کوہ پیمائی سے متعلق ڈیٹا رکھنے والے بیلی بیرلنگ کا کہنا ہے کہ ایک چیز جو نہیں بدلی وہ پہاڑ سر کرنے کا طریقہ کار ہے اور وہ ابھی بھی ویسا ہی ہے، آج بھی کوہ پیماؤں کا تمام ساز و سامان نیپالی شرپے اٹھا کر چلتے ہیں۔
جدید دور کے مقابلے میں 29 مئی 1953 کو جب ایڈمنڈ ہلری اور ٹینزنگ نورگے نے ایورسٹ کی چوٹی پر قدم رکھا تو یہ خبر 2 جون کو اخباروں میں چھپی تھی، اور اسی دن ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کی تقریب بھی تھی۔ 
کوہ پیماؤں کی بڑی کامیابی کی یہ خبر پہاڑوں سے پیدل اترنے والے شخص نے نیپال کے نمچہ بازار میں واقع ٹیلی گراف اخبار کے سٹیشن تک پہنچائی تھی۔
لیکن اب تھری جی کی سہولت کے باعث کوہ پیما چوٹی پر کھڑے ہی دنیا کو بتا دیتے ہیں کہ وہ بلند ترین مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

مقامی زبان میں ماؤنٹ ایورسٹ کو ’دنیا کی دیوی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 سنہ 2011 میں برطانوی کوہ پیما نے پہاڑ کی چوٹی سے ہی اپنی اس کامیابی کی خبر ٹویٹ کر دی تھی۔
جبکہ سال 2020 میں چین نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر فائیو جی کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب دنیا کی دیوی ماں کہلائی جانے والی ماؤنٹ ایورسٹ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔
سال 2018 میں ایورسٹ کے کھمبو گلیشیئر پر ہونے والی تحقیقاتی سٹڈی سے معلوم ہوا تھا کہ یہ تیزی سے پگھل رہا ہے اور درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

شیئر: