Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری کہانیاں ہر عمر کے لیے نہیں، کیا کردار کروں: ماہ نور بلوچ

اداکارہ کرن تعبیر کا کہنا تھا کہ شوبز کی دنیا بہت مصنوعی ہوتی ہے (فوٹو: انسٹاگرام کرن تعبیر)
فنکاروں کا مداحوں کے ساتھ کچھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ مداح ہمیشہ اپنے پسندیدہ فنکار کو کسی نہ کسی طرح دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بعض مداح تو یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ ٹی وی سکرین پر جلوے بکھیرنے والے فنکار کی زندگی میں کوئی پریشانی ہوتی ہی نہیں ہے، جبکہ ایسا بلکل نہیں کیونکہ انہیں بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا سامنا ایک عام شخص کرتا ہے۔
گذشتہ دنوں اداکارہ کرن تعبیر نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شوبز کی چکمتی دمکتی دنیا کے پیچھے چُھپے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’شوبز کی دنیا بہت مصنوعی ہوتی ہے، وہ ڈپریشن کا شکار بناتی ہے، اس لیے ابھی وہ شوبز میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ابھی وہ اپنی زندگی سکون سے گزار رہی ہیں۔‘
اداکارہ نے مداحوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’شوبز انڈسٹری جتنی شہرت دیتی ہے یہ اتنا ہی سکون آپ سے چھین لیتی ہے اور انہیں اپنا سکون بہت پیارا ہے۔‘
مداحوں کے سوال پر اداکارہ نے سکرین سے دوری کی وجہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ’شوبز میں انسان اپنے لیے خوش رہنا اور جینا بھول جاتا ہے، بس ایک دوڑ لگی رہتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ کسی کی کامیابی ایک ڈرامے تک محدود نہیں رہتی، ایک کے بعد دوسرے کو حاصل کرنے کی جستجو لگی رہتی ہے، جس کے لیے پھر دوسروں کی چاپلوسی بھی کرنی پڑتی ہے۔‘
ایسا ہی سوال ایک ٹی وی شو میں ماضی کی معروف اداکارہ ماہ نور بلوچ سے پوچھا گیا کہ وہ اب ڈراموں میں اداکاری کیوں نہیں کرتیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’ہماری کہانیاں ہر عمر کے اعتبار سے نہیں ہوتیں، اس لیے اب میں کیا کردار ادا کروں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں 27 برس کی تھی تو اس وقت شہزاد رائے کی ماں کا کردار ادا کیا تھا، کردار مضبوط ہونا چاہیے، میں صرف یہ کہنے لیے کام کرنا پسند نہیں کرتی کہ بیٹا! کھانا کھالو، پانی پی لو۔‘

لالی ووڈ سے ہالی ووڈ تک

بڑی عید کے موقع پر اس سال تقریباً سات فلمیں ریلیز ہونے جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک انیمیٹڈ فلم جبکہ دو ایسی فلمیں ہیں جن کی کہانی کراچی شہر کی جانب گھومتی نظر آئیں گی۔
جہاں رانا کامران کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’وی آئی پی‘ کی کہانی کراچی کے سیاسی حالات کے گرد گھومتی ہے تو وہیں ہدایت کار سراج السالکین کی فلم ’مداری‘ کی کہانی بھی کراچی میں رہنے والے نوجوانوں کی ہے۔  
فلم کے ڈائریکٹر سراج السالکین نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ فلم ’مداری‘ کراچی شہر کی ایسی سیاسی تاریخ پر مبنی ہے جس سے یہاں کا ہر مقامی باشندہ متاثر ہوا، لیکن اس فلم کی کہانی اور اس کے تمام کردار فرضی ہیں، اس میں کراچی اور اس کے ماضی کے مخدوش سیاسی حالات کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔
فلم میں اہم کردار ادا کرنے والے اداکار پارس مسرور کا کہنا تھا کہ اس فلم کی کہانی کسی نہ کسی طور کراچی میں رہنے والے ان تمام نوجوانوں کی کہانی ہے جنہوں نے اپنے بچپن، لڑکپن یا جوانی میں کراچی شہر میں پھیلی بدامنی دہشت اور بے چینی کو قریب سے دیکھا۔

برطانوی اخبار گارڈین نے پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ کو ’سال 2023 کی بہترین فلم‘ قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب ہدایت کار داور مراد نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ ان کی دستاویزی فلم  ’ہم سایہ‘ کو وینس انٹر کلچرل فلم فیسٹیول 2023 میں انسانی حقوق پر مبنی بہترین مختصر دستاویزی فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس فلم کی نمائش 16 جون کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں جبکہ 23 جون کو وینس، اٹلی اور دنیا بھر کے دیگر مقامات پر ہو گی۔
فلم میں لڑکیوں کے اغوا، جبری شادی، جبری تبدیلی مذہب جیسے معاشرتی مسائل پر مبنی کہانیوں کو شامل کر کے ان مسائل کو اجاگر کیا۔
ہالی ووڈ کی بات کریں تو اسی ہفتے ایک خبر سامنے آئی کہ ماضی میں اپنے گانے ’آئی ٹو آئی‘ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے پاکستانی گلوکار طاہر شاہ گلوکاری سے اب اداکاری کے میدان میں قدم رکھنے جا رہے ہیں۔
تاہم طاہر شاہ ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ جلد ہالی ووڈ فلم میں اداکاری کرتے دکھائی دیں گے۔ اس فلم کا نام بھی ’آئی ٹو آئی‘ رکھا گیا ہے جس میں وہ اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔
 ساتھ ہی یہ ذکر بھی کر لیتے ہیں کہ برطانوی اخبار گارڈین نے پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ کو ’سال 2023 کی بہترین فلم‘ قرار دیا ہے۔

ڈراموں سے لے کر حقیقی زندگی تک

ان دنوں اگر پاکستانی ڈراموں کو دیکھیں تو تقریباً ہر ڈرامے میں ڈپریشن، حسد، شادی، لالچ اور عورت پر ظلم و ستم یکسانیت سے ملتے ہیں خواہ وہ ڈرامہ ’احرام جنوں‘، ’مجھے پیار ہوا تھا‘ یا ’تیرے بن‘ ہو۔ یہی چند عنصر ہر ڈرامے میں ملتے ہیں۔ ہاں البتہ حال ہی میں شروع ہونے والے ڈرامے ’گناہ اور گرو‘ کی کہانی کچھ دلچسپ لگ رہی ہے۔
ڈرامہ گرو میں نظر آنے والی اداکارہ ژالے سرحدی کہتی ہیں کہ پاکستانی شوبز انڈسٹری میں محدود کردار لکھے جاتے ہیں، لڑکیوں کی زندگی یا مسائل صرف شادی تک محدود نہیں ہوتے، انہیں اس کے علاوہ بھی دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے دیگر مسائل سے دوچار خواتین کے کردار بھی لکھے جائیں تو خود بخود ہر عمر کے کردار سامنے آنے لگیں گے۔

اداکارہ حرا سومرو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں شادی کے لیے لڑکیوں پر ناجائز دباﺅ ڈالا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: انسٹاگرام حرا سومرو)

ایک انٹرویو میں اداکارہ کا کہنا تھا کہ اس وقت سماجی مسائل پر ڈرامے بنانا اور کردار لکھنا بہت ضروری ہے، پاکستان میں صرف غیر ازدواجی تعلقات پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں جبکہ یہاں دیگر متعدد مسائل بھی موجود ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ جو کہانیاں ڈراموں میں دکھائی جا رہی کیا ویسا حقیقی زندگی میں نہیں ہو رہا؟ چلیے ڈرامہ ’تیرے بن‘ کی مثال لے لیجیے جیسا کہ ڈرامے میں ڈپریشن، ظلم اور لڑکی پر شادی کے دباؤ کو دکھایا گیا کیا ایسا نہیں ہے؟
اسی ڈرامے سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ حرا سومرو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں شادی کے لیے لڑکیوں پر ناجائز دباﺅ ڈالا جاتا ہے اور ان کی پسند و ناپسند کا خیال نہیں رکھا جاتا جو ان کے گھروں سے بھاگنے کی بڑی وجہ ہے۔‘
جبکہ شادی پر دباؤ کے حوالے سے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ مریم نفیس نے بتایا کہ جب ان کی عمر 19 برس تھی تب سے ہی ان کی والدہ کو ان کی شادی کی فکر تھی۔
اداکارہ نے کہا ’مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے لیکن جب بیٹیاں میٹرک میں پہنچیں تو سب ماؤں کو ان کی شادی کی فکر ہونے لگتی ہے، میری والدہ بھی چاہتی تھیں کہ میری  شادی جلدی ہو جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری والدہ مجھ سے یہ بھی کہتی تھیں کہ شادی کے بعد جو چاہو کر لینا، لیکن میں جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میرے لیے اپنی پسند کا ایسا شخص تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔‘
اگر ڈپریشن کی بات کریں تو گذشتہ دنوں اداکارہ صحیفہ جبار خٹک نے سوشل میڈیا کی اپنی پوسٹ میں اپنے شدید ذہنی مسائل کا انکشاف کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ ’وہ اس قدر مایوس ہو چکی ہیں کہ انہیں کہیں سے کوئی روشنی نظر نہیں آتی، وہ ہر روز اپنی موت کی تمنا کرتی ہیں۔‘
اداکارہ نے بتایا تھا کہ ’انہیں اپنے موجودہ حالات کو سمجھنے اور انہیں قبول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، وہ بہت ہی غمگین، مسائل سے دوچار، بے سکون اور مایوس ہیں۔‘
انہوں نے لکھا تھا کہ ’انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے، وہ گذشتہ 60 روز سے سکون کی نیند نہیں لے سکیں، ان کا وزن 12 کلو تک کم ہو گیا ہے اور ان کے اہل خانہ ان کی پریشانی دیکھ کر افسردہ رہتے ہیں۔‘

شیئر: