’کرکٹ انفو‘ پر وزلے ہال کا تعارف اس جملے سےشروع ہوتا ہے:
’وزلے ہال نے ایک عشرے تک دنیا بھر کے بلے بازوں کو خوف زدہ کیے رکھا۔‘
ویسٹ انڈین فاسٹ بولر کی دہشت، کھلاڑیوں اور مبصرین نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ وزلے ہال کی برق رفتاری کا حوالہ اردو شاعری میں بھی مل جاتا ہے۔ معروف شاعر ضمیر جعفری نے ہال کی تندی و تیزی بڑے ظریفانہ پیرائے میں نظم کی ہے:
ہال کے بال
(ویسٹ انڈیز کے تیز رفتار باؤلر وزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)
شور اٹھا کہ ہال آتا ہے
کھیل کا انتقال آتا ہے
ہال پر جب جلال آتا ہے
بال سے پہلے ’حال‘ آتا ہے
ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا
لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے
الاماں اس کی برق رفتاری
بال ہے یا خیال آتا ہے
بال آتا ہے یا نہیں آتا
کچھ مگر لال لال آتا ہے
مزید پڑھیں
-
کرکٹ اور شاعری کے میدان کا کھلاڑیNode ID: 451431
-
ایڈی گلبرٹ، نسل پرستی جن کا کیریئر اور زندگی کھا گئیNode ID: 771476
یہ نظم برسوں پہلے پڑھی تھی۔ کچھ عرصہ قبل استاذی محمد سلیم الرحمٰن سے اس کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ سنہ 1959 میں ویسٹ انڈین ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر ضمیر جعفری نے لاہور ٹیسٹ پر بھی نظم لکھی تھی جو حنیف رامے کے رسالے ’نصرت‘ میں شائع ہوئی تھی۔
یہ جان کر نظم تلاش کرنے کی دُھن سوار ہو گئی۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ گزشتہ اتوار کو پرانی کتابوں کے بازار سے ’نصرت‘ کا 64 برس پرانا وہ پرچہ مل گیا جس میں مذکورہ نظم شائع ہوئی تھی۔ اس کا آغاز وزلے ہال کے نامِ نامی سے ہوتا ہے:
آؤ وزلے ہال کی باتیں کریں
اس سیہ بھونچال کی باتیں کریں
لاہور ٹیسٹ میں میزبان ٹیم ایک اننگز اور 156 رنز سے ہار گئی۔ اپنی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ میں یہ پاکستان کی پہلی شکست تھی۔ ویسٹ انڈیز کی کامیابی میں روہن کہنائی کا بڑا اہم کردار تھا جنہوں نے 217 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ ضمیر جعفری نے نظم میں کہنائی کی شاندار پرفارمنس کی طرف بھی اشارہ کیا :
میچ تو بھائی کہنائی لے گیا
کہنائی کا اردو نظم ہی نہیں، معروف ادیب شوکت تھانوی کے کرکٹ پر پرُلطف مضمون میں بھی ذکر ہوا ہے، جس میں کرکٹ کے رسیا ڈاکٹر صاحب کا دھیان، مریضوں پر کم، ٹیسٹ میچ کی طرف زیادہ ہے۔ اس رویے پر بیمار بچے کا باپ شکوہ کناں ہے:
’کرکٹ کا جنوں وبائی صورت اختیار کر گیا ہے۔ صبح بچے کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گیا تھا، اس کو دو دن سے بخار آ رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر اچھے خاصے آدمی ہیں۔ بڑی اچھی تشخیص ہے۔ دست شفا بھی ہے، لالچی بھی کچھ زیادہ نہیں، صرف اپنے نسخے اپنی ہی ڈسپنسری میں بندھواتے ہیں مگر آج ان کا عالم ہی اور تھا۔ نہ وہ توجہ تھی نہ مرض کی تہہ تک پہنچ جانے والا انہماک۔ بچے کی نبض ان کے ہاتھ میں تھی اور حال سن رہے تھے ایک اور صاحب سے کہنائی کا۔ میں نے بچے کا حال سنانا شروع کیا کہ پرسوں اس نے ہم لوگوں سے چھپ کر دہی بڑے کھا لیے تھے کہ یکایک مطب میں شور اٹھا ’آؤٹ‘ اور ڈاکٹر صاحب نے بچے کی نبض اس طرح چھوڑ دی گویا اسی کی وجہ سے امتیاز آؤٹ ہوا ہے اور اس طرح سر جھکا کر بیٹھ گئے گویا خود ان کا کوئی ذاتی حادثہ ہو گیا ہے۔‘
وزلے ہال اور کہنائی کے اردو ادب میں تذکرے پر بات کے بعد اب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان سنہ 1959 میں کھیلے گئے لاہور ٹیسٹ کے ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف بڑھتے ہیں۔ قارئین! عمران خان اور نواز شریف نے زندگی میں پہلی دفعہ جو ٹیسٹ دیکھا وہ اتفاق سے باغ جناح میں کھیلا جانے والا یہی ٹیسٹ میچ تھا۔
اس زمانے میں عمران خان کی کرکٹ کے بجائے دوسرے کھیلوں میں زیادہ دلچسپی تھی، اس لیے وہ والدہ کے ساتھ میچ دیکھنے گئے تو بور ہی ہوئے۔ وزلے ہال کی گیند سے اعجاز بٹ کی ناک پر چوٹ لگی اور انہیں زخمی حالت میں گراؤنڈ سے باہر آنا پڑا۔ یہ منظر دیکھ کر عمران خان کی میچ میں رہی سہی دلچسپی بھی جاتی رہی۔ مستقبل کے عظیم فاسٹ بولر کو ہال کی بولنگ نے بھی متاثر نہ کیا۔
سنہ 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کی فاتح پاکستانی ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے کرکٹ سے جڑی یادیں تازہ کیں تو معلوم ہوا کہ وہ بھی پاکستان اور ویسٹ انڈیز کےمابین ٹیسٹ میچ دیکھنے باغ جناح گئے تھے اور یہ پہلی دفعہ تھا جب انہوں نے کوئی ٹیسٹ میچ ’لائیو‘ دیکھا۔
انہوں نے وزلے ہال کے ہاتھوں اعجاز بٹ کے زخمی ہونے کا حوالہ بھی دیا۔ ان کے بقول ’ہال ایک بڑا زبردست بولر ہوتا تھا۔‘
اس موقع پر نواز شریف نے پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد کی بیٹنگ کو بھی سراہا۔ امتیاز احمد کا ذکر ہے تو لگے ہاتھوں یہ بتا دیں کہ وہ ان بلے بازوں میں سے تھے جنہوں نے ہال کا مقابلہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا، ان کے اس کمال کا اعتراف ہال نے اپنی کتاب ’پیس لائک فائر‘ میں کیا ہے۔
اس ٹیسٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مشتاق محمد نے 15 سال اور 124 دن کی عمر میں کیریئر کا آغاز کر کے سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
اس میچ میں ہال نے مسلسل تین گیندوں پر مشتاق محمد، فضل محمود اور نسیم الغنی کو آؤٹ کر کے ہیٹ ٹرک کی۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ویسٹ انڈین بولر تھے۔
میں نے مارچ 2015 میں لیجنڈری کرکٹر حنیف محمد کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا:
’والدہ نے ہال سے کہا کہ تم نے میرے بیٹے کو باؤنسر کیا تومیں تیری خبر لوں گی۔ وزیر بھائی نے والدہ کی یہ بات ہال کو بتائی تو وہ خوب ہنسا۔‘
حنیف محمد نے ’پلیئنگ فار پاکستان‘ میں اپنے فیورٹ کھلاڑیوں کی فہرست میں وزلے ہال کو شامل کیا ہے اور انہیں کیریئر میں آنے والے خطرناک بولروں میں سے ایک قرار دیا ہے جس کا لمبا رن اپ اور کلاسیکل ایکشن تھا۔
حنیف محمد نے لکھا ہے کہ ہال کا مزاج دوسرے فاسٹ بولروں سے مختلف تھا۔ نہایت شریف اور فراخ دل کرکٹر۔ انہی خوبیوں کی بنا پر وہ تماشائیوں میں بہت مقبول تھے۔
اردو ادب اور پاکستان سے وزلے ہال کے کنکشن پر تو بات ہو گئی اب آخر میں ان کے کیریئر کا اجمالاً جائزہ۔ چھ فٹ دو انچ قد کے حامل وزلے ہال نے 48 ٹیسٹ میچوں میں 26.38 کی اوسط سے 192 وکٹیں حاصل کیں۔ سنہ 1960 میں آسٹریلیا کے خلاف برسبن میں، ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے ٹائی میچ میں، نو کھلاڑی آوٹ کیے۔ میچ کا آخری اوور بھی کروایا جس میں مخالف ٹیم کو جیت کے لیے چھ رنز درکار تھے۔ اس اوور میں انہوں نے باؤنسر سے آسٹریلوی کپتان رچی بینو کی قیمتی وکٹ لی۔
48 Tests
192 wickets at 26.38One of the finest pace bowlers from West Indies and an ICC Hall of Famer
Here's wishing Wesley Hall a happy birthday! pic.twitter.com/jsdSfWwGXr
— ICC (@ICC) September 12, 2021