Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رضوانہ کے بعد اسلام آباد میں ایک اور ملازمہ پر تشدد، ’گرم چمچ سے جلایا گیا‘

کمسن ملازمہ رضوانہ پر تشدد کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)
’عندلیب کے جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشان ہیں۔ وہ روزانہ تشدد سہتی۔ عندلیب کی چیخیں بلند ہوتیں مگر اس کی مدد کرنے کے لیے کوئی وہاں موجود نہیں تھا اور ایک روز عندلیب کی والدہ اس کو واپس لے جانے کے لیے آئیں تو مالکن زیتون بی بی نے ان کو بھی گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا۔‘  
13 سالہ عندلیب فاطمہ کے والد محمد یوسف نے نم زدہ آنکھوں کے ساتھ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم غریب لوگ ہیں، گزر بسر بھی مشکل سے ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ میں نے دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو ملازمت کے لیے اسلام آباد بھیجا تھا مگر اس کی مالکن نے نہ صرف اس پر تشدد کیا بلکہ اس کی پہلی تنخواہ بھی ادا نہیں کی۔‘
مزید پڑھیں
انہوں نے مزید کہا، ’میری بیوی جب عندلیب سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آئی تو اسے بھی روک لیا گیا۔ میری بیٹی کا جسم جگہ جگہ سے جھلسایا گیا تھا۔ اس نے بدترین ظلم سہا۔‘  
چنیوٹ کے نواحی گائوں 152 ج ب کے رہائشی محمد یوسف جب اپنی بیٹی پر ہونے والے اس ظلم کی داستان بیان کر رہے تھے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
انہوں نے بتایا کہ ’13 سالہ عندلیب چار چھوٹے بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔ دکان سے ہونے والی آمدن سے گزارہ مشکل ہو رہا تھا تو عندلیب کو 20 ہزار روپے ماہانہ پر اسلام آباد کے ایک گھر میں ملازمت لگوا دی۔ لیکن پہلی تنخواہ ملنے سے پہلے ہی اسے اپنے جسم پر کبھی نہ بھولنے والے گھائو مل گئے۔‘
تھانہ ترنول میں عندلیب فاطمہ کی والدہ خالدہ بی بی کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’اسلام آباد کے سیکٹر جی 15 میں رہائش پذیر زیتون بی بی کے گھر ان کی بیٹی ایک مہینہ نو دن سے کام کر رہی تھی، وہ جب اپنی بیٹی سے ملنے گئیں تو اس کے چہرے اور سر پر زخم تھے۔‘
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے، ’میں اپنی بیٹی کو دیکھ کر بے ساختہ رو پڑی کیوں کہ اس کے جسم کے باقی حصوں پر بھی زخم تھے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق، خالدہ بی بی نے جب اپنی بیٹی سے اس کے جسم پر آئے زخموں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’زیتون بی بی اسے روزانہ مارتی تھیں اور گھر میں رابطہ بھی نہیں کرواتیں تھیں۔‘
عندلیب کی والدہ نے نے کہا کہ ’میں رابطہ نہ ہو پانے کے باعث ہی عندلیب سے ملنے آئی تھی۔‘
رپورٹ کے مطابق، ’زیتون بی بی سے جب اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے مجھے بھی کمرے میں بند کر دیا اور کہا کہ تمہیں بھی مزہ چکھاتی ہوں۔ میں نے ان کے پاؤں پکڑے جس کے بعد انہوں نے مجھے جانے دیا اور دھمکیاں بھی دیں۔ انہوں نے میری بچی کی ایک ماہ اور نو دن کی تنخواہ بھی نہیں دی۔‘
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’بچی کو چمچ گرم کر کے بھی جھلسایا جاتا تھا۔‘
مقدمے کے تفتیشی افسر اے ایس آئی عرفان عباس نے بتایا کہ ’ملزمہ کو عدالتی احکامات پر جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔‘  
بچی کے والد محمد یوسف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بچی نے صرف ایک ماہ ہی کام کیا تھا اور مالکن نے تنخواہ ادا نہیں کی تھی جب کہ بچی سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا چناں چہ میری بیوی نے اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آنے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے کہا، ’میری بیوی نے جب عندلیب کی یہ حالت دیکھی تو اس کا جسم زخموں سے چور تھا، جس کے بعد پولیس کو درخواست دی گئی۔‘
محمد یوسف نے کہا، ’میرے گائوں کے ایک جاننے والے نے ہی یہ ملازمت دلوائی تھی۔ ہماری اس خاندان سے اس سے قبل ملاقات نہیں ہوئی تھی اور ہم آگاہ نہیں تھے کہ لوگ بچیوں کے ساتھ اس طرح کا ظالمانہ سلوک بھی کرتے ہیں۔‘  
انہوں نے بتایا، ’میری بیوی نے اگرچہ مجھ سے مشورہ کیے بغیر پولیس میں درخواست دی لیکن اس نے اچھا ہی کیا ہے۔ ظلم چپ رہ کر تو برداشت نہیں کیا جا سکتا، ہم اپنی بیٹی پر ہونے والے ظلم کو کسی طور پر معاف نہیں کریں گے۔‘
 کچھ عرصہ قبل ہی اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ رضوانہ پر بدترین تشدد کی خبریں بھی شہ سرخیوں میں شائع ہوتی رہی ہیں اور اس پر ظلم کرنے والی اس کی سابقہ مالکن اب جیل میں ہے اور رضوانہ کے خاندان والے پرامید ہیں کہ وہ انصاف کے حصول میں کامیاب رہیں گے جب کہ عندلیب بھی یقیناً انصاف پانے میں کامیاب رہے گی۔

شیئر: