Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی مقدمے عدالتوں میں لانے کے بجائے مل بیٹھ کر حل کریں: جسٹس جمال مندوخیل

پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ پرویز الٰہی کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ہائیکورٹ کو ہی فیصلہ کرنے دیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو پنجاب کے سابق پرویز الٰہی کی عبوری ضمانت کے آرڈر کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر 21 اگست تک فیصلہ کرنے کے لیے کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر آئندہ سماعت پر ہائی کورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو سنگل بینچ کا فیصلہ بحال ہو جائے گا۔
بدھ کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے  پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔
پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے پیش ہو کر بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بتائیں ہائیکورٹ میں آپ کی انٹرا کورٹ اپیل کیسے قابل سماعت ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ 21 اگست کو لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کرے گا۔ عدالت چاہے تو ہدایت جاری کر دے کہ 21 اگست کو قابل سماعت ہونے کے معاملے پر فیصلہ کر دیا جائے۔ 
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ بازی اچھی روایت نہیں۔ عدالتوں کو ملوث کرنے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل کو حل کریں۔‘
پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ چوہدری پرویز الٰہی کی ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوتی ہے دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ایک شخص مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے خود پیش ہو رہا ہے۔ کیوں بار بار گرفتاری کی جا رہی ہے؟ پتہ نہیں حکومت ایک ہی ملزم کو بار بار گرفتار کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’آپ کو مقدمات پر مقدمات درج کرنے کے لیے ازخود نوٹس کا اختیار حاصل ہے لیکن عدالتوں کے پاس نہیں؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’یہ کیس ایک شخص کی آزادی کا معاملہ ہے۔ کسی شہری کی آزادی سلب کرنا غیر آئینی ہے۔ ایک منٹ کے لیے بھی آزادی چھیننا آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘
پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ پرویز الٰہی کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے لاہور ہائیکورٹ کو ہی فیصلہ کرنے دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔ آپ جینوئن کیس میں ملزم کو سزا دلوا دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا ہائی کورٹ کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے؟‘
پرویز الٰہی کے وکیل نے جواب دیا اگر اوپر تلے مقدمات میں گرفتاری ہو رہی ہو تو عدالتیں ایسے احکامات دیتی ہیں۔ 10 سال پرانے مقدمات میں بھی پرویز الہٰی کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ 
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ‘جب تک آپ خود کچھ نہیں کریں گے یہ تو چلتا رہے گا۔ یہ سب تو آپ لوگ کرتے رہتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم سب اپنا قبلہ درست کریں۔‘
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ’پرویز الہٰی کو گرفتار نہ کرنے کے حکم کے خلاف پنجاب حکومت بطور تھرڈ پارٹی کیسے اپیل کر سکتی ہے۔ جس اپیل کا پنجاب حکومت کو اختیار نہیں تھا اس پر ہائی کورٹ نے حکم کیسے دیا۔‘
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ہائی کورٹ نے 21 اگست کو فیصلہ نہ دیا تو پرویز الہیٰ کی رہائی کا سنگل بینچ کا فیصلہ بحال ہوجائے گا۔ عدالت نے پرویز الہٰی کا کیس واپس ہائی کورٹ بھجواتے ہوئے نمٹا دیا۔ 

شیئر: