Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی بم، اشرافیہ کی طفل تسلیاں اور عوام کی بے بسی: ماریہ میمن کا کالم

اس دفعہ عوام کا بجلی کے بم کے خلاف ردعمل organic اور غیر سیاسی ہے۔ (فوٹو: ظفر خٹک)
جب بھی بجلی یا اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹی وی چینلوں کی طرف سے سرخی چلتی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا گیا۔
سرخی بنانے والے اور اس کو دیکھنے والے دونوں ہی ایک روایتی سی بے نیازی کے ساتھ اس عمل سے گزر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مگر اس لمحے سے گزرنا مشکل ہوتا ہے اور ایسا لمحہ وہی ہوتا ہے جب بم کے مضمرات یعنی تباہی، نقصان، اور ہلاکت کا تصور آپ صرف دیکھیں نہیں محسوس بھی کریں۔
آج کل بھی کچھ ایسے ہی دن ہیں۔ پچھلے ایک ڈیڑھ برس میں مہنگائی عروج پر رہی ہے۔ پیٹرول اور ڈالر اس مہنگائی کے دو بڑے ماخذ ہیں۔ اس دو مکھی مہنگائی نے محدود آمدنی والے طبقے کو غربت میں اور متوسط طبقے کو کم آمدنی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس سب کے باوجود لیکن لوگ جیسے تیسے کر کے دن کاٹ رہے تھے۔ عوام کی طرف سے سفر کم سے کم یا انتہائی ضروری حالت میں ہو رہا ہے اور تعیشات کا تو کم آمدنی والے طبقے نے خیال ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس مہینے بجلی کے بل آنے کے بعد گھر سے نکلنا تو کیا گھر رہنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
بجلی کے بل کے زیادہ ہونے کا سیدھا سا حساب ہے کہ اگر بجلی کا بل ایک خاندان کی ماہانہ آمدنی کے برابر پہنچ جائے تو وہ اپنے خاندان کو کھلائے یا بل دے۔ اس کے ساتھ اگر وہ خاندان کرائے کے گھر میں رہتا ہو تو وہ پہلے ہی اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کرائے کی مد میں صرف کر رہا ہے۔
بجلی کے بل اس صورتحال میں واقعی بم بن کر لگے ہیں۔ حکومت نے پچھلے بجٹ میں کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کی۔ اول تو اس پر عمل نہیں ہوتا اور اگر اسی کو بنیاد بنایا جائے اور اوسطً بجلی کا بل 15 ہزار ہو تو کوئی کیسے گزارہ کرے اس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے۔
حکومت کے پاس اس کا جواب حیلوں بہانوں اور اعدادو شمار کی صورت میں ہی ہے۔ موجودہ حکومت تو خیر سے نگران ہے اور الیکشن کروانے کی ذمہ دار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ الیکشن کروانے کے علاوہ سب کاموں پر ان کو دھیان ہے۔
اگر سب طرف توجہ ہے اور الیکشن بھی ابھی نہیں ہونے تو پھر عوام کی حالت کی ذمہ داری بھی لیں۔ خیر سے قوم کو نفیس اور انگریزی بولنے والے وزیراعظم ملے ہیں جو اگر ملک سے باہر جانے کے مشورے دینے کے بجائے ملک کے اندر رہنے والی عوام کی حالت پر رحم کریں تو شاید کم از کم بجلی کی قیمت نہ بڑھے۔ آخرکار اسی غیرمنتخب حکومت کے ہاتھوں سے بجلی کا بم عوام پر گرا ہے۔

نگراں حکومت کا الیکشن کروانے کے علاوہ سب کاموں پر دھیان ہے۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

بات اگر حکومت کی ہو تو ن لیگ کی بھی بڑی دلچسپ پوزیشن ہے۔ ان کے اپنے بقول بجلی کا حصول اور پیداوار ان کے نمایاں کارناموں میں سے ایک ہے۔ کیا بجلی کی پیداوار صرف اسی لیے کی گئی کہ آئی پی پیز کے مالکان کو اربوں نہیں بلکہ کھربوں کی ادائیگی میں کوئی تاخیر نہ ہو مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔
ن لیگ کے قابلیت کے دعوے بجلی کی پیداوار کی حد تک تو کھل کر کیے جاتے ہیں مگر بجلی کے نظام کی اصلاح میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ایک بار پھر ملک میں تاریخی مہنگائی کا انتظام کرنے کے بعد اب ن لیگ کی قیادت لندن میں عوام کے لیے سوچ و بچار کر رہی ہے۔
ایک زمانے میں شہباز شریف صاحب مینار پاکستان میں ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کر امور حکومت سرانجام دیا کرتے تھے۔ وہ پنکھے کہیں پڑے ہوں گے اگر کوئی ان تک پہنچا دے۔ اور آخر بجلی پر سرچارج اور ٹیکس کیوں لگائے جاتے ہیں؟ اس کا سادہ جواب حکومتی نظام کی نااہلی میں ہے۔
بجلی کی ترسیل کے نظام میں ایک نمایاں حصہ چوری یا ضائع ہو جاتا ہے۔عرصے سے اس کے تدارک پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اس حصے کا بوجھ بھی عوام پر پڑتا ہے۔ اس کے بعد بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے مہنگے معاہدوں کا نتیجہ کئی طرح کے سرچارج کی شکل میں نکلتا ہے۔
آخر میں حکومت اپنے خسارے کا بوجھ عوام پر ڈال کر مطمئن ہو جاتی ہے۔ اس دوران بجلی کے محکمے کے افسران کی مفت بجلی کی خبریں عوام کے زخموں پر مزید نمک ڈالنے کے مترداف ثابت ہوتی ہیں۔

ملک میں تاریخی مہنگائی کا انتظام کرنے کے بعد اب ن لیگ کی قیادت لندن میں عوام کے لیے سوچ و بچار کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس دفعہ عوام کا بجلی کے بم کے خلاف ردعمل organic اور غیر سیاسی ہے۔ اس دفعہ یہ ردعمل شدید اور غصے سے بھر پور بھی ہے۔ یہ ردعمل دو برس سے جاری اقتدار کی اس کشکمش کے خلاف بھی ہے جس میں اشرافیہ نے اپنے سیاسی عزائم کے لیے عوام کی بنیادی سہولتوں تک پر سمجھوتا کر لیا ہے۔ یہ ردعمل کسی خاص طبقے کے نہیں ان حالات کے خلاف ہے جنہوں نے عوام سے ان کی رات کی نیند تک چھین لی ہے۔
ایک طرف اشرافیہ کی طفل تسلیاں ہیں اور دوسری طرف عوام کی بے بسی۔ بہت عرصے تک اس بے بسی کو زبان نہیں ملی تھی مگر اب ہر طرف سے ایک ہی آواز ہے کہ اگر کوئی سننے والا ہے تو سنے کہ یہ حالات اگر نہ بدلے تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

شیئر: