Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی، آئینی اور سماجی بحران کا حل کیا؟ ماریہ میمن کا کالم

سیاسی بحران کے دوران جڑانوالہ میں سماجی بحران بھی سامنے آیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پچھلے ایک سال سے ملکی نظام کچھ ایسا شکست و ریخت کا شکار ہوا ہے کہ سنبھلنے ہی نہیں پا رہا۔ اس وقت ملک میں نگران حکومتیں ہیں جن میں سے دو صوبوں کی حکومتیں اپنی آئینی مدت سے تجاوز کر کے اب غیر معینہ مدت کے لیے موجود ہیں۔ یہی حال وفاقی حکومت اور دیگر دو صوبوں کی حکومتوں کا ہے۔ حتیٰ کہ گلگت بلتستان اور کشمیر تک میں سیاسی بحران اپنا روپ دکھا چکے ہیں۔
عام انتخابات کرانے کے لیے آئین میں مدت درج ہے مگر کسی کو بھی یقین نہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے بلکہ یہ بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کب ہوں گے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ٹی وی اور ٹوئٹر پر نظر آنے والے مناظر اس بحران کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ملک کے صدر کو ٹوئٹر پر آ کر بتانا پڑ رہا ہے کہ جو بل قانون بن چکے ہیں ان کی منظوری انہوں نے نہیں دی۔
قطع نظر اس کے کہ اس میں ان کی طرف سے فیس سیونگ کی کوشش ہے، آئینی ابہام ہے یا پھر ان کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ ہر صورت اسی امر کی آئینہ دار ہے کہ ملکی نظام سیاسی اختلافات کی تاب نہ لا کر شکست و ریخت کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔
اسمبلی کے آخری دنوں میں جس طرح کی اور جس تیزی سے قانون سازی ہوئی اس کے اثرات مہینوں نہیں سالوں محسوس کیے جائیں گے۔ اس میں جس طرح قواعد اور روایات کو بالائے طاق رکھا گیا ہے وہ بھی تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہے۔
ریاستی اداروں میں اختلافات بھی ہوتے ہیں، غلط فہمیاں بھی اور آپس میں پوائنٹ سکورنگ بھی مگر جید تجزیہ کار اور تاریخ کے طالب علم اس طرح کی مثال لانے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔
دوسرا عکس دیکھیے۔ ملک کا سابق وزیر خارجہ گرفتار ہو کر عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے اور ایف آئی آر میں الزام ہے ملکی کی حساس دستاویزات کو غلط طریقے سے استعمال کرنا اور ملکی راز کو سیاسی مفاد کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔ الزامات کی صداقت ایک قانونی معاملہ ہے اور حتمی فیصلہ عدالت میں ہو گا مگر صرف ان visuals کو ہی دیکھ کر ملکی نظام کے بارے میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔
پوری دنیا میں لوگ اس صورتحال کو دیکھ کر کیا اندازے لگا رہے ہوں گے اس کے بارے میں تو اب مزید تبصرے کی بھی ضرورت نہیں۔
اس سے پہلے عدلیہ اور نظام انصاف کے اندر اور باہر بھی implosion سامنے آئی۔ ایک وقت تھا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اوپر تنقید کا ایک فورم بن گیا تھا  کوئی دن نہیں جاتا کہ جس دن بینچ کے ٹوٹنے اور بننے کی خبر نہ آ رہی ہو۔ عدلیہ کے واضح فیصلے بالائے طاق پڑے ہیں اور سیاسی رہنماؤں کے طرف سے ان پر تنقید بھی معمول ہے۔ اس میں ذمہ داری ظاہر ہے عدالتوں کے اندر بھی ہے اور باہر بھی، مگر اعلی عدالتوں کی ساکھ نظام انصاف کی مضبوطی کی آئینہ دار ہے اور نظام انصاف ملکی نظام کا ایک اہم ستون ہے۔

ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے تاحال غیریقینی ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

 آج کے دن ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ستون شکست و ریخت سے محفوظ ہے اور عدلیہ کی کمزوری پورے ملکی نظام کو کمزور کرتی ہے۔ سماجی طور پر جڑانوالہ کا واقعہ بھی سامنے ہے۔ ایسے وقت میں جب سیاسی، آئینی اور معاشی بحران اپنے اثرات دکھا ہی رہے تھے اسی وقت ہمارے سماج کا خوفناک چہرہ بھی سامنے آ گیا۔ گلی محلوں میں ساتھ رہنے والے اور زیادہ تر غربت میں پلنے والے عوام قانون اور اخلاق کی پرواہ کیے بغیر اقلیتی طبقے پر حملہ آور ہوئے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک ان کی عبادت گاہوں کو نذرِ آتش نہ کر لیا اور وہ گھرو ں سے بے گھر نہ ہو گئے۔
ہم تسلی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ سے لے کر حکومت تک سب نے اس کی مذمت کی ہے مگر کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟ گوجرہ، جوزف کالونی لاہور، قصور، ننکانہ صاحب اور کتنے ہی واقعات ہو چکے ہیں، مزید بھی ہوں گے اور نظام منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ ملک اس وقت بحرانوں کے مجموعے یا polycrisis سے گزر رہا ہے۔ آئین، معیشت، سیاست اور سماج کا کوئی رخ ایسا نہیں جو بحران سے مبرا ہے۔ سب سے خطرناک امر البتہ ملکی نظام کا dysfunctional ہونا ہے جس کے اثرات خطرناک اور دیر پا ہیں ۔ نظام آخر ہے کیا ؟ ملکی اداروں کے درمیان ربط اور ان کے ایک سمت ہو کر چلنے کا نام ہی نظام ہے۔ ملک بڑے بڑی آفتوں کے اندر مبتلا ہو کر بھی باہر نکلتے ہیں مگر خطرناک امر یہ ہے کہ ہمارا نظام اندر سے implode کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے ملکی نظام ہیجان اور شکست و ریخت کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کا حل تو ظاہر ہے کہ ملکی قیادت کو یک طرفہ اور انتہائی اقدامات کے بجائے باہمی تعاون اور تعمیری رستہ اختیار کرنا ہو گا ورنہ نظام کی شکست و ریخت کو درست کرتے کرتے ایک عرصہ بیت جائے گا۔

شیئر: