Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کابینہ میں توسیع، کئی شخصیات کا ماضی ’تنازعات‘ کا شکار رہا ہے

گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقدہ حلف برداری کی تقریب میں گورنر ملک عبدالولی کاکڑ نے وزرا سے حلف لیا۔ (فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان کی نگراں کابینہ میں مزید توسیع کردی گئی ہے۔ مزید چھ وزرا نے عہدوں کا حلف اٹھا لیا جس کے بعد وزرا کی تعداد 11 اور مشیروں کی شمولیت کے ساتھ کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
بدھ کو گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقدہ حلف برداری کی تقریب میں گورنر ملک عبدالولی کاکڑ نے وزرا سے حلف لیا۔ اس موقع پر نگراں وزیراعلٰی علی مردان ڈومکی بھی موجود تھے۔
نگراں وزیر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ کو قانون و پارلیمانی امور اور پراسیکیوشن، ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کو صحت، نوابزادہ جمال رئیسانی کو کھیل و امور نوجوانان اور ثقافت کی وزارتیں دی گئی ہیں۔
سردار اعجاز خان جعفر کو پبلک ہیلتھ انجینئرنگ و بہبود آبادی ،شیخ محمود الحسن مندوخیل کو بلدیات و دیہی ترقی جبکہ آصف الرحمان دمڑ کو بین الصوبائی رابطہ کا قلم دان سونپا گیا ہے۔
اس سے قبل 21 اگست کو بلوچستان کے پانچ وزرا نے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا۔ اس کے علاوہ وزیراعلٰی نے اپنے تین مشیر بھی مقرر کیے تھے۔
پہلے مرحلے میں بننے والے وزرا اور مشیروں کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کابینہ میں شامل بیشتر ارکان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے رہنماؤں کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی برطانوی شہری جبکہ صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر قادر بخش بلوچستان کے باشندے ہی نہیں۔ ان کا ووٹ پشاور میں درج ہےاور وہ مردان کی ولی خان یونیورسٹی سے جعلی بھرتیوں کے کیس میں برطرف کیے گئے تھے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے درخواست گزار بایزید خروٹی کی جانب سے درخواست واپس لینے کے باوجود کیس کو آگے چلانے کا حکم دیا اور ارکان کا ریکارڈ اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔
کابینہ میں شامل ہونے والے نئے ارکان میں کئی معروف اور کچھ غیر معروف چہرے شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا ماضی بھی مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے۔

امان اللہ کنرانی:

امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ معروف قانون دان ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان کے رکن، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان ہائی کور ٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔

امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ معروف قانون دان ہیں، سینیٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

امان اللہ کنرانی سنگین غداری کیس اورعبدالرزاق شرقتل کیس سمیت سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر مختلف مقدمات میں درخواست گزاروں کے وکیل رہے ہیں۔
امان اللہ کنرانی نواب اکبر بگٹی کے ترجمان اور ان کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2003 سے 2006 تک سینیٹر رہے ہیں۔
وہ  بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل کی حیثیت سے سپریم کورٹ اورعالمی عدالت میں ریکوڈک کیس میں بلوچستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عالمی عدالت میں کیس ہارنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

امیر محمد خان جوگیزئی:

66 سالہ ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کا تعلق بلوچستان کے ضلع لورالائی اور پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے کی شاخ جوگیزئی سے ہے۔ وہ بلوچستان کے سابق گورنر گل محمد خان جوگیزئی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
امیر جوگیزئی چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں۔ محکمہ صحت میں ملازم رہے۔ وہ کوئٹہ کے کڈنی سینٹر کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ 2015 میں نیب نے کڈنی سینٹر میں چھ کروڑ روپے کی بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ان کے خلاف تحقیقات کی تھیں۔

66 سالہ ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کا تعلق بلوچستان کے ضلع لورالائی اور پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے کی شاخ جوگیزئی سے ہے.

اسی مقدمے میں نامزدگی کے باعث وہ اگست 2018 میں گورنر بلوچستان بنتے بنتے رہ گئے۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے ترجمان کو بیان جاری کرنا پڑا کہ 'امیر محمد خان جوگیزئی کو گورنر بلوچستان کا عہدہ دیا جانا محض ایک تجویز تھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں تھا۔ امیر محمد خان کے حوالے سے سامنے آنے والے بعض شواہد کی بنا پر اس تجویز پر مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘

نوابزادہ جمال رئیسانی:

نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی نوابزادہ سراج رئیسانی کے صاحبزادے، سابق گورنر غوث بخش رئیسانی کے پوتے اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے بھتیجے ہیں۔
ان کا شمار صوبے کے سب سے کم عمر وزرا میں ہوتا ہے۔
جمال رئیسانی کے والد سراج رئیسانی اور بڑے بھائی حمل رئیسانی 2018  اور 2011 میں آبائی علاقے مستونگ میں بم دھماکوں میں قتل ہوئے۔
نوجوان سیاستدان  بھی والد کی طرح مقتدرہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جمال رئیسانی والد کے قتل کے بعد میدان سیاست میں آئے اور سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں معاون برائے امور نوجوانان رہے۔

جمال رئیسانی کی والدہ کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی تھائی لینڈ سے حاصل کی۔

رواں سال جنوری میں انہوں نے آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
جمال رئیسانی کی والدہ کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی تھائی لینڈ سے حاصل کی۔ وہ فٹبال کے اچھے کھلاڑی ہیں اور تھائی لینڈ میں قومی سطح کے فٹبال مقابلوں میں شرکت کرچکے ہیں۔

سردار اعجاز جعفر:

61  سالہ کیپٹن ریٹائرڈاعجاز جعفر جعفر قبیلے کے سردار اور سابق بیورو کریٹ ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل سے ہے۔ وہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔
سردار اعجاز جعفر وفاقی سیکریٹری مذہبی امور، ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب، پنجاب اور بلوچستان میں کئی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور محکموں کے سیکریٹری  رہ چکے ہیں۔

شیخ محمود الحسن مندوخیل:

شیخ محمود الحسن مندوخیل کا تعلق بلوچستان کے ضلع ژوب سے ہے۔ وہ سابق سینیٹر سعید الحسن مندوخیل کے بھائی اورپاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر سابق صوبائی وزیر جعفرمندوخیل کے کزن  ہیں۔

سردار آصف الرحمان دمڑ:

سردار آصف دمڑ کا تعلق بلوچستان کے ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی سے ہے۔ وہ یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طالب علم رہے ہیں۔

 سالہ کیپٹن ریٹائرڈاعجاز جعفر جعفر قبیلے کے سردار اور سابق بیورو کریٹ ہیں۔

وہ عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ضلع ناظم سردار احسان اللہ دمڑ کے بھانجے ہیں۔ سردار احسان دمڑ کو سنجاوی میں لیویز اہلکاروں کے قتل کے واقعہ کے خلاف ایک ماہ سے زائد عرصہ تک دھرنا دینے پر شہر ت ملی تھی۔

شیئر: