Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان کی وہ ریاست جہاں مونچھیں رکھنے، عورتوں کے پردہ کرنے پر ٹیکس تھا

مونچھیں رکھنے پر ٹیکس جنوبی ہند میں ریاست تراونکور میں 19 ویں صدی تک نافذ العمل تھا۔ (فوٹو: ہوم گرون)
اگر آپ گوگل پر ’دلت کلڈ فار‘ ٹائپ کریں گے تو آپ کو آپشنز میں گھوڑے پر چڑھنے کے لیے، پانی چھونے کے لیے، پانی پینے کے لیے، مندر میں داخل ہونے کے لیے، گربھا دیکھنے کے لیے جیسے مشورے نظر آئیں گے۔
یہ کوئی پرانی بات نہیں آج بھی انڈیا میں سماج اونچی اور نیچی ذات میں تقسیم ہے اور دلت جنھیں کبھی اچھوت سمجھا جاتا تھا انھیں ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ مذکورہ چیزوں کے لیے انھیں اپنی جان بھی گنوانی پڑی ہے۔
لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان کے ایک علاقے میں نچلی ذات یا دلت برادری کے لوگوں کو مونچھ رکھنے پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہان تک کہ خواتین کو پردے کے لیے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔
یہ ٹیکس جنوبی ہند میں بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع ریاست تراونکور میں 19 ویں صدی تک نافذ العمل تھا جب تک کہ انگریزوں نے اس میں مداخلت نہیں کی اور اسے کالعدم نہ قرار دیا۔
تراونکور انڈیا کی 500 سے زیادہ شاہی ریاستوں میں سے ایک ریاست تھی جو انگریزوں کی حکمرانی تسلیم کرتی تھی لیکن ان کا اپنا راج اور نظام تھا۔
جب اس ٹیکس کے بارے میں مجھے علم ہوا تو اردو کے معروف فکشن نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی ’ممد بھائی‘ لامحالہ یاد آ گئی۔ مممد بھائی کی دلیری، جوان مردی، غریب پروری کے قصے منٹو نے سن رکھے تھے جو ان دنوں غریب الوطنی کے عالم میں ممبئی کی عرب گلی میں رہتے تھے۔
منٹو بیمار پڑے تو ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور وہ اپنی کھولی میں تن تنہا پڑے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
منٹو لکھتے ہیں: ’دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دی، اندر داخل ہوا۔
اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن تھا کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی نے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔‘

تراونکور کی ریاست اپنے ظالمانہ ٹیکس کے لیے مشہور تھی۔ (فوٹو: شٹرسٹاک)

منٹو کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ مونچھوں کی اہمیت کوئی کم نہیں ہے اور شاید اسی لیے تراونکور کے راجہ نے نچلی ذات کے مردوں پر مونچھیں رکھنے کے لیے ٹیکس عائد کر رکھا تھا۔
یہ جہاں ایک طرح سے جبر کی علامت تھا وہیں یہ اس بات کا بھی غماز تھا کہ اس سے شان و شوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور جو شان و شوکت دکھا سکتا ہے اسے تو ٹیکس ادا کرنا ہی پڑے گا۔
آج بھی برصغیر میں کسی کو بے عزت کرنا ہوتا ہے تو اس کے داڑھی مونچھ اور سر کے بال منڈوا کر اسے تماشا اور عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔
تراونکور کی ریاست اپنے ظالمانہ ٹیکس کے لیے مشہور تھی۔ صحافی دیپتی پریا مرہوترا ’دی پرنٹ‘ میں شائع اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ تراونکور راجا دلتوں سے انتہائی بے رحمی کے ساتھ تقریباً 110 قسم کے محصول وصول کرتے تھے۔ ان ٹیکسوں میں ماہی گیروں کے جال پر، زیورات پہنے پر، مونچھیں رکھنے پر ایک عام ٹیکس لگایا جاتا تھا جسے ’تلاکرم‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب تھا ’ہیڈ ٹیکس‘ یعنی فرد پر عائد ٹیکس۔
واپس سعادت حسن منٹو کے بیان پر آتے ہیں جو انھوں نے ممد بھائی کے بارے میں لکھا: ’وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔‘
’اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔‘
 تراونکور کے راجہ کو بھی شاید دلتوں کے مونچھیں رکھنے سے اس طرح کا احساس ہوتا ہوگا نہیں تو وہ اس پر ٹیکس کیوں عائد کرتا۔
 

شیئر: