Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رضیہ سلطان: جنوب ایشیا کی پہلی خاتون حکمراں جن کے نام کے سکے جاری ہوئے

التمش نے اپنی وصیت قلمبند کرائی کہ ان کا جانشین کوئی اور نہیں بلکہ ان کی بیٹی رضیہ ہوگی (فوٹو: ہسٹری ان ریولڈ)
ہندوستان میں دہلی کی سلطنت کے تیسرے فرماں رواں شمس الدین التمش جنہیں دوسری زبانوں میں التتمش بھی کہا جاتا ہے بونین کی بغاوت کو کچلنے کے بعد دہلی لوٹ آئے ہیں اور وہ اب اپنے اندر بڑھاپا اور کمزوری محسوس کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنا جانشین مقرر کر دیں۔
وہ اپنے بیٹوں پر نظر دوڑاتے ہیں، لیکن کوئی بھی اس قابل نظر نہیں آتا کہ جانشینی کا حق ادا کرسکے اور جو ایک قابل نظر آتا تھا وہ دارفانی کو الوداع کہہ چکا تھا۔ ایسے میں انھیں دہلی کی سلطنت کے لیے ایک ہی امید کی کرن نظر آتی ہے جو ان کی بیٹی رضیہ ہے جس نے کئی بار ان کی غیر حاضری میں دہلی کے امور مملکت کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ہے۔
بہرحال انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے جانشین کا اعلان کر دیں گے اور جب وہ یہ بات اپنی اہلیہ شاہ ترخان (بعض نے شاہ ترکان) لکھا ہے کو بتائی تو ان پر بجلی گر پڑی کیونکہ ان دونوں کے درمیان کچھ اچھی نبھتی بھی نہیں تھی۔
جب انھوں نے اپنا ارادہ مصمم کر لیا تو اپنے مشیر خاص تاج الدین کو طلب کیا اور اپنی وصیت قلمبند کرائی کہ ان کا جانشین کوئی اور نہیں بلکہ ان کی بیٹی رضیہ ہوگی۔
ادھر شاہ ترخان جو پہلے لونڈی ہوا کرتی تھی، لیکن اپنی ذہانت اور دلفریبی کے سبب ملکہ عالیہ کے منصب تک پہنچ گئی، انھیں چین کہاں آتا اور انھوں نے امرائے دربا، جسے ’چہل گانی‘ کہا جاتا تھا، ان کے ساتھ سازباز شروع کر دی اور انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ بادشاہ کے اتنے بیٹوں کی موجودگی میں آخر ایک خاتون بادشاہ کیسے بن سکتی ہے۔
معروف مصنف رفیق زکریا نے رضیہ سلطان پر ایک تاریخی تصنیف تحریر کی ہے جس میں انھوں نے اس واقعے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔
وزیراعظم نظام الملک بادشاہ التمش کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور جانشینی کے مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ بادشاہ استفسار کرتے ہیں کہ اس جانشینی میں کیا خرابی ہے تو بقول رفیق زکریا نظام الملک کہتے ہیں کہ ’اعلٰی حضرت کیا ہمیں یہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ رضیہ ایک خاتون ہیں۔ ہم ایک خاتون کے سامنے حلف برداری کیوں کر اٹھا سکتے ہیں؟‘
ہر چند کہ ان کی آواز میں انکساری اور تشویش دونوں تھی، لیکن بادشاہ کا ارادہ اٹل تھا۔
نظام الملک تو چپ رہے، لیکن پھر بات ملک عزالدین ایاز نے بڑھائی اور کہا کہ ’ہمیں اس کا علم ہے اعلی حضرت۔ ہمارے دل میں محترم شہزادی کے لیے صرف تحسین اور احترام کا جذبہ ہے۔ لیکن آنے والی ذمہ داری بڑی ہے۔ کام زیادہ دشوار ہے۔ کاش شہزادی رضیہ آپ کی بیٹی کے بجائے آپ کا بیٹا ہوتیں۔ ان میں تمام خوبیاں ہیں بس اتنی بات ہے کہ وہ خاتون ہیں۔‘
سلطان نے کہا کہ ’گور خان کی بیوی اور ان بیٹی کویوک خاتون کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘

سلطان نے کہا کہ ’رضیہ تدبر اور فراست سے کام لے سکتی ہے اور سلطنت کے اتحاد کو قائم رکھ سکتی ہے۔‘ (فوٹو: کلچرل انڈیا)

رضیہ کے جانشینی کے اوصاف
پھر سلطان نے کہا کہ اس وقت امور سلطنت کے پیش نظر صحیح اقدام کی ضرورت ہے اور ’اس لیے ہم نے رضیہ کو اپنا وارث اور جانشین قرار دیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ رضیہ عورت ہے بلکہ اس لیے کہ وہ تدبر اور فراست سے کام لے سکتی ہے اور سلطنت کے اتحاد کو قائم رکھ سکتی ہے۔ تمہیں خود اس بات کا اعتراف ہے کہ اس میں خوبیاں جمع ہو گئی ہیں وہ نو عمر ہے اور اپنے حسن کے باوجود اپنے منصب سے واقف ہے۔ اس میں وقار اور تمکنت ہے اور عمل کرنے کی قوت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ میرے دونوں برے بیٹوں کی طرح وہ عیش و عشرت کی دلدادہ نہیں۔ اس کی طبیعت میں نیکی اور شرافت ہے۔ وہ علم کے زیور سے بھی آراستہ ہے۔ اور دربار میں کوئی اس کا ثانی نہیں ہے۔ عربی پر اس کو عبور حاصل ہے۔ قرآن اور حدیث سے پوری واقفیت ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا چاہیے۔‘
پھر انھوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ ’بس اتنا کافی ہے۔ تم سب پر ہماری خواہش کا احترام لازم ہے۔ رضیہ ہماری آنکھوں کا نور ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ نور ساری سلطنت میں پھیل جائے۔‘
ہر چند کہ بادشاہ نے سارے دلائل سامنے رکھ دیے اور اپنا حکم صادر کر دیا، لیکن چہل گانی کو یہ پسند نہیں آیا اور جب بادشاہ کی موت واقع ہوگئی تو پھر ایک بار تخت نشینی کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر چند کہ سب کو معلوم تھا کہ رضیہ ہی وارث ہے لیکن چہل گانی کے اکثر امرا کے خلاف جانا کسی کی ہمت نہیں تھی۔ پھر کہا جاتا ہے کہ رضیہ نے خود ہی ماحول کے دیکھتے ہوئے رکن الدین کے نام کا اعلان کر دیا اور نہایت خوش اسلوبی سے ایک بڑے مسئلے کو حل کر دیا۔ بہر حال رکن الدین فیروز کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور وہ شاہان غلام میں چوتھا بادشاہ کہلایا۔
شاہ ترخان کے مظالم
رکن الدین بادشاہ بنتے ہیں پس پردہ ان کی والدہ شاہ ترخان کی حکومت چلنے لگی اور انھوں نے اپنے مخالفین کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ دوسری جانب بادشاہ رکن الدین پہلے سے زیادہ عیش و طرب میں ڈوب گیا۔
جب امرا ان کے خلاف ہونے لگے تو انھوں تاجک یعنی غیر ترکی امرا کو راستے سے ہٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں اس عہد کے معروف مورخ منہاج السراج کے مطابق وزیر اعظم نظام الملک جنیدی کے بیٹے اور تاج الدین محمد کا قتل شامل تھا، کیونکہ تاج الدین نے رضیہ کی حمایت میں بادشاہ کی وصیت پیش کی تھی۔
ان واقعات سے دہلی کے عوام میں اضطراب بڑھنے لگا اور وہ رضیہ کے حق میں نظر آنے لگے۔ جب صورت حال بگڑنے لگی تو شاہ ترخان نے رضیہ کو ہی راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا جو کہ کسی طرح ناکام ہو گيا۔ اس دوران رکن الدین کہرام میں بغاوت کو کچلنے میں مصروف تھا کہ لوگوں نے رضیہ کی حمایت میں بغاوت کر دی اور ان کی والدہ شاہ ترخان کو گرفتار کر لیا گیا۔
اور پھر رضیہ کے معتمد امراء کی مدد سے رضیہ کو دہلی کے تخت پر پوری شان و شوکت کے ساتھ بٹھایا گیا۔ جب رکن الدین کو اس کا علم ہوا تو اس نے دہلی کا رخ کیا، لیکن انھیں دہلی کے نواح میں گرفتار کر کے رضیہ کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر انھیں سزائے موت دے دی گئی اور اس طرح رضیہ دہلی ہی نہیں بلکہ پورے جنوب ایشیا کی پہلی خاتون حکمراں بنیں جن کے نام کے خطبے پڑھے گئے اور جن کے نام کے سکے جاری ہوئے۔
معروف مصنف اور مورخ رعنا صفوی نے اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع اپنے ایک مضمون میں رضیہ کے متعلق امیر خسرو کے اشعار کا انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے جو ہمیں نہ مل سکا، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ’کئی ماہ تک اس کے چہرے پر پردہ رہا، اس کی تلوار پردے کے پیچھے سے بھی بجلی کی طرح چمکتی رہی۔ جب اس کی تلوار میان میں چلی گئی تو کئی طرح کی بغاوتیں نہ روکی جا سکیں پھر اس نے اپنی شاہی ضرب سے نقاب کو چاک کردیا جس میں سے سورج کی طرح تاباں چہرہ باہر آیا۔ اس شیرنی نے اپنی قوت کا ایسا جوہر دکھایا کہ بہادر زمان ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئے۔‘

بالی وڈ نے رضیہ سلطان پر کئی ایک فلمیں بھی بنائی ہیں جو اپنے اپنے زمانے میں کافی مقبول ہوئی تھیں (فوٹو: زی فائیو)

رضیہ سلطان کا کردار اتنا جاذب نظر ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی ان کے نام پر اپنی بیٹیوں کا نام رکھتے ہیں یہاں تک کہ بالی وڈ نے ان پر کئی ایک فلمیں بھی بنائی ہیں جو اپنے اپنے زمانے میں کافی مقبول ہوئی تھیں۔
ہر چند کہ اس میں جس معاشقے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ذکر معاصر تاریخ میں نہیں ملتا۔ البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ ان کے معتمد خاص جمال الدین یاقوت نامی ایک حبشہ سے آنے والے غلام تھے جنھیں انھوں نے بعض ترک امرا سے زیادہ اکرام کیا تھا اور انھیں بہت اہم منصب امیر آخور یعنی گھوڑوں اور اصطبل کا ذمہ دار بنا دیا۔
ترک امرا رضیہ سے پہلے ہی نالاں تھے کیونکہ انھوں نے عزالدین ایاز کی بغاوت کو کچلنے کے بعد بھی انھیں معاف کر دیا تھا اور ان سے لاہور کا علاقہ لے کر ملتان کا علاقہ ان کے حوالے کیا تھا۔
انھوں نے اپنے بچپن کے ساتھی التونیہ کو تبر ہند یعنی موجودہ بھٹنڈا کا خطہ سونپا۔ التونیہ رضیہ سلطان سے شادی کی خواہش رکھتا تھا اور جب اسے رضیہ کی یاقوت کے ساتھ قربت کا پتہ چلا تو اس نے علم بغاوت بلند کر دیا جس میں دہلی کے کئی امرا درپردہ اس کے شریک تھے۔
رضیہ سلطان التونیہ کی سرکوبی کے لیے وہاں پہنچیں تو ان کے سامنے یاقوت کا قتل کر دیا گیا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن التونیہ کو دہلی میں وہ کچھ نہیں ملا جس کو وہ توقع کر رہے تھے تو وہ مایوس ہوگئے اور انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے رضیہ کو شادی کا پیغام بھیجا جو انھوں نے دہلی سلطنت کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید میں اسے قبول کر لیا۔
تاہم جب انھوں نے دہلی کی جانب کوچ کیا تو دہلی کی فوج نے انھیں شکست سے دو چار کیا اور کیتھل بھاگنے پر مجبور کر دیا جہاں ان کی فوج کے ساتھیوں نے انھیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے رضیہ کے زیورات کے لالچ میں دونوں کو قتل کر ڈالا۔ ان کی موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 15 اکتوبر 1240 کو ہوئی تھی جبکہ شکست 14 اکتوبر کو ہوئی۔
لیکن اردو کے ایک محقق سید صادق علی لکھتے ہیں کہ ان کی موت ایک ماہ بعد ہوئی اور یہ کہ ربیع الاول اور ربیع الآخر کے مہینے کے ترجمے میں غلطی ہوئی ہے اور ان کے مطابق ان کا مزار دہلی کے بجائے ٹونک میں ہے۔
جبکہ دیگر ذرائع اور تاریخ کے حوالے یہ بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں آباد جسے آج پرانی دلی کہا جاتا ہے اس کے جنوبی دروازے ترکمان گیٹ کے قریب تنگ گلیوں میں دو قبریں ہیں جن میں سے ایک کو رضیہ سلطان کی قبر کہا جاتا ہے۔

مصنف مظہر انصاری نے لکھا ہے کہ رضیہ کے علاوہ ہندوستان کی سلطنت پر کوئی دوسری مسلم خاتون جلوہ گر نہ ہو سکیں (فوٹو: ہسٹری ان ریولڈ)

رعنا صفوی لکھتی ہیں کہ ترکمان گیٹ سے اندر گلیوں میں جا کر ’دو پتھر کی قبریں ہیں جو راجی شاجی (رضیہ اور شازیہ) کے نام سے مشہور ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ دوسری قبر میں کون پڑا ہے۔ ساتھ میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں نماز ادا کی جاتی ہے اچھی حالت میں برقرار ہے۔‘
معرف سیاح ابن بطوطہ اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس کی قبر پر ایک چھوٹا سا مزار بنایا گیا تھا جس کی زیارت کرنے کو لوگ اس وقت آتے تھے اسے حرمت کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ جمنا کے کنارے دہلی سے ایک فرسنگ پر واقع ہے۔‘
بہر حال ’رضیہ سلطانہ‘ نامی  کتاب کے مصنف مظہر انصاری نے لکھا ہے کہ رضیہ کے علاوہ ہندوستان کی سلطنت پر کوئی دوسری مسلم خاتون جلوہ گر نہ ہو سکیں۔ ان کے مطابق نور جہاں اور چاند بی بی کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن وہ کسی اور کے نام سے حکومت کر رہی تھیں نہ کہ وہ مطلق العنان حکمراں تھیں۔ نور جہاں کے وقت اصل بادشاہ جہانگیر تھے اور نور جہاں ان کے دل پر ضرور حکومت کرتی تھی۔
اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ چاند بی بی بھی حکمراں نہیں تھی اور وہ اپنے بھتیجے نظام بہادر شاہ کے نائب کی حیثیت سے حکومت چلا رہی تھی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معروف تاریخ داں عرفان حبیب کہتے ہیں کہ ’رضیہ سلطان ایک قابل ذکر خاتون تھیں جنھوں نے مردوں کی دنیا میں اپنی حیثیت تسلیم کرانے کی کوشش کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عہد وسطی میں جب ہر جا مردوں کی اجارہ داری تھی ایسے ماحول میں انھوں نے اپنی حاکمیت قائم کی۔ آپ کو تاریخ میں اس طرح کی کوئي زیادہ مثال نہیں ملتی۔ وہ کسی مرد کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں تھیں۔‘
رفیق زکریا اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں وہ اپنے عہد سے بہت آگے تھیں۔ ان کے پاس ایک ایسی وسعت نگاہ تھی جس سے ان کے تنگ دل اور تنگ نظر امرا محروم تھے۔ اس کی آزاد منش رواداری قرون وسطی کے لیے اجنبی تھی۔ اس کی بے تعصب آزاد خیالی اور فراخ دلی ان اندھیرے دنوں کے لیے بیگانہ تھی اور سب سے بڑھ کر وہ منصف مزاج تھی اور اپنی رعایا کہ لیے وہ شفیق ماں کی طرح تھی جو پیار بھی کرتی تھی اور تادیب بھی۔‘
انھوں نے لکھا کہ وہ نو عمری میں ہی رخصت ہو گئی اور اگر وہ زندہ ہوتی تو اور اگر اس کا عہد حکومت ذرا طویل ہوتا تو اس کا نام مغل بادشاہ اکبر اعظم کے بجائے قومی یکجہتی کی بنیاڈ ڈالنے والے کی حیثیت سے سونے کے حروف سے لکھا جاتا۔
رفیق زکریا لکھتے ہیں کہ ’موت کے وقت اس کی عمر 30 سال کی بھی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک دلنواز شخصیت، ایک خوبصورت ذہانت، ایک گہری دانشمندی، ایک متحرک طاقت، ایک آہنی عزم و استقلال رخصت ہو گيا۔ وہ ایک کمزور عورت تھی جو مردوں کی بہیمانہ دنیا میں ایک لطیف انسانیت کا جذبہ لے کر آئی تھی۔ اس نے عام زندگی میں از منہ وسطی میں تہذیب کی مشعل روشن کی۔‘

شیئر: