امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاشبہ غزہ کے لیے جنگ بندی معاہدے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سفارتی فتح کامیابی حاصل کی ہے، لیکن مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا پڑا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا 79 سالہ ٹرمپ جو معاملات کی بارکیوں کو نظرانداز کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں، کیا وہ آئندہ دنوں میں بھی اسی جذبے کے ساتھ طویل مدتی تنازعے پر اپنا وقت لگانا چاہیں گے۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلکن پارٹی کے دو میں مختلف عہدوں پر رہنے والے ایرون ڈیوڈ ملر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی بھی معاہدہ، لیکن خاص طور پر اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ ثالثی کروانا ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دیNode ID: 895664
ڈیوڈ ملر نے کہا، ’ٹرمپ نے ایسا کچھ کرنے کا فیصلہ کیا جو کسی بھی پارٹی کے کسی بھی امریکی صدر نے نہیں کیا، جو اسرائیلی وزیر اعظم پر ایک ایسے معاملے پر دباؤ ڈالنا ہے جسے وہ (نیتن یاہو)ٰ اپنی سیاست کے لیے اہم سمجھتا ہیں۔‘
تاہم ڈیوڈ ملر، جو ماضی میں مشرق وسطیٰ کے امن مذاکرات کا حصہ رہے ہیں نے خبردار کیا کہ معاہدے کی ’ پیچیدگیاں اور تفصیلات‘ ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ معاہدے کے 72 گھنٹوں کے دوران یرغمالیوں کی رہائی کے امکان غزہ کی پٹی پر جمعے کی صبح نو بجے فائرنگ کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اتوار کو مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں اور مصر میں بھی رکیں گے جہاں معاہدے کے حوالے سے مذاکرات ہوئے تھے۔ی
پچھلے 20 سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہر امریکی صدر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بحرانوں کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے صدر ٹرمپ کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
فلسطین کے معاملے پر ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے ارب پتی صدر ٹرمپ وسیع تر خواہشات رکھتے ہیں - وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پہلی مدت کے دوران وائٹ ہاؤس میں طے پانے والے ابراہیم معاہدے کو بحال کیا جائے جس کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کیا تھا۔