Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سارہ شریف کیس: ’پولیس ضمانت دے تو والدین گرفتاری دے سکتے ہیں‘

گذشتہ ماہ اپنے گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ برطانوی بچی سارہ شریف کی سوتیلی والدہ بینش بتول کی طرف سے حکام کے ساتھ تعاون کرنے کا بیان جاری ہونے کے بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ 
ایک طرف پولیس نے سارہ شریف کے والد عرفان شریف، بینش بتول اور عرفان کے بھائی ملک فیصل کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور مختلف علاقوں میں چھاپوں کے ساتھ عرفان شریف کے بھائیوں اور خاندان کے افراد کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے ہیں تو دوسری طرف عرفان کے والد کے وکلا نے عدالتی کارروائی کے ذریعے ان کی گرفتاری سے پہلے فضا اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ 
بدھ کے روز بینش بتول کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سارہ کی موت ’ایک حادثہ‘ تھا اور انہوں نے برطانوی پولیس سے تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ عدالت میں اپنا کیس لڑیں گی۔
بینش کا کہنا تھا کہ ’سارہ کی موت ایک حادثہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود ہمارا خاندان شدید متاثر ہوا ہے۔‘ 
’ہمارے خاندان کے سب افراد روپوش ہو چکے ہیں کیونکہ ہر ایک کو اپنے تحفظ کی فکر لاحق ہے۔ ہمارے بچے سکول نہیں جا پا رہے۔ کوئی بھی گھر سے نکل نہیں سکتا۔ کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا ہے۔ بچوں اور بڑوں کے لیے کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ ہم اس حالت میں چھپے ہوئے ہیں۔‘ 
بینش کے اس بیان کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ وہ، ان کے شوہر اور ان کے ساتھ روپوش دیگر افراد جلد اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔  

ملک عرفان کے رشتہ داروں کے خلاف مقدمات درج 

10 اگست کو سارہ شریف کی برطانیہ کے شہر ووکنگ میں ہلاکت کے بعد اس کے والد ملک عرفان شریف، سارہ کی سوتیلی والدہ بینش بتول، اپنے بھائی ملک فیصل اور چار دوسرے بچوں کے ساتھ پاکستان کے شہر جہلم آ گئے تھے۔ 
ان کے برطانیہ سے فرار ہونے کے بعد انٹرپول نے ان کی تلاش کے لیے ایک بین الااقوامی الرٹ جاری کیا تھا جس کے بعد یہ خاندان جہلم سے روپوش ہو گیا اور ابھی تک غائب ہے۔  
جہلم پولیس کے ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ملک عرفان کے خاندان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت دو تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان مقدمات کی بنا پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔. 

ملک عرفان کے والد بھی روپوش 

ملک عرفان کے خاندان کے وکیل راجہ حق نواز کے مطابق ان کے کم ازکم چھ رشتہ دار گرفتار کیے جا چکے ہیں جبکہ ان کے خلاف ایک مقدمہ ضلع چکوال میں بھی دائر کیا گیا ہے۔ 

ملک عمران کی ملکیت جنرل سٹور بھی گذشتہ دو ہفتے سے بند ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’پولیس نے عرفان کے بھائی ملک عمران، بہنوئی محد عثمان، بھانجے جلال اور سیالکوٹ سے ان کے کم ازکم تین رشتہ دار گرفتار کیے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ پولیس کی کارروائیوں سے تنگ آ کر ملک عرفان کے 75 برس کے والد محمد شریف بھی روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ محمد شریف کے ایک اور وکیل ملک آصف توفیق نے بتایا کہ ملک عرفان اور بینش بتول پولیس کی طرف سے کیے جانے والے سلوک کے خدشے کے باعث سامنے نہیں آ رہے، تاہم وہ ان کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیں۔ 

ملک عرفان کے گھر اور دکان پر بڑے بڑے تالے 

ادھر جہلم شہر میں کینٹ کے علاقے لوٹا چوک میں واقع محمد شریف کے گھر پر ایک بڑا سا تالہ لگا ہوا ہے اور اس سے ملحقہ ملک عمران کی ملکیت جنرل سٹور بھی گذشتہ دو ہفتے سے بند ہے، اور اس پر بھی بڑے تالے پڑے ہوئے ہیں۔ 
ان کے پڑوسی محبوب حیسن جو محمد شریف کے گھر کے باہر ٹینٹ سروس کا کام کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ پولیس تقریباً ہر روز رات کو ان کے گھر پر آتی ہے اور چیک کرتی ہے کہ عرفان اور ان کی اہلیہ یہاں آئے ہیں یا نہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ تقریباً دس بارہ روز سے ملک عمران ان کے بھائی ملک ظریف اور ان کے والد محمد شریف گھر سے غائب ہیں۔  
 ’یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پولیس نے ان کو نہیں اٹھایا بلکہ وہ یا تو خود روپوش ہوئے ہیں یا کسی اور ادارے کے پاس ہیں۔‘ 

’پندرہ دن سے بھائی سے بات نہیں ہوئی‘ 

جہلم کینٹ کے لوٹا چوک سے تقریباً 20 منٹ کی مسافت پر محمد شریف کے آبائی گاؤں کڑی میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔ گلیوں میں لوگ پیدل اور موٹر سائیکلوں پر آ جا رہے ہیں اور مویشی دن بھر چراگاہوں میں چرنے کے بعد شام میں گھروں کو واپس ہو رہے ہیں۔ 

وکیل ملک آصف توفیق کے مطابق عرفان اور ان کی اہلیہ بینش کو بچوں کے تحفظ کی فکر ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

لیکن ملک عرفان کے چچا محمد فاروق جو ان کی ایک بہن کے سسر بھی ہیں بہت گھبرائے ہوئے اور پریشان ہیں۔ 
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اپنے بھائی سے تقریباً 15 دن پہلے فون پر بات ہوئی تھی اور بھتیجے ملک عرفان کی ان سے کئی سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ 
ان کا پورا خاندان اس واقعے کی وجہ سے پریشان ہے اور باوجود اس کے کہ سارہ کی موت سیڑھیوں سے گر کر ہوئی ہے، ان کے بھتیجے اور ان کے خاندان کو روپوش ہونا پڑ رہا ہے جس کی وجہ پولیس کی زیادتی اور ناجائز طور پر تنگ کرنا ہے۔ 

ملک عرفان کسی بھی وقت گرفتاری پیش کر سکتے ہیں

تاہم محمد شریف کے وکیل راجہ حق نواز کے مطابق ملک عرفان اور بینش بتول اگلے تین چار روز میں کسی بھی وقت پولیس کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اپنا رویہ بدلے اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف زیادتیاں بند کرے۔ 
انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ ملک عرفان اور بینش گرفتاری دینے سے پہلے میڈیا کے سامنے تمام حقائق خود بیان کریں۔
ملک آصف توفیق کے مطابق عرفان اور ان کی اہلیہ بینش اس لیے خود کو پولیس کے حوالے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں بچوں کے تحفظ کی فکر ہے اور اگر انہیں ان کے تحفظ کی یقین دہانی کروا دی جائے تو وہ گرفتاری دینے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔   

عرفان شریف کی دو نہیں تین شادیاں 

عرفان شریف کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ 2000 کے اوائل میں سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ گئے تھے جہاں انہوں نے 2009 میں پولینڈ کی ایک خاتون اولگا سے شادی کی تھی جس سے ان کے دو بچے 13 سالہ نعمان شریف اور 10 سالہ سارہ شریف پیدا ہوئیں۔ اولگا سے علیحدگی کے بعد انہوں نے میر پور سے تعلق رکھنے والی بینش بتول سے شادی کی جس سے ان کے چار بچے ہیں۔ 
تاہم عرفان کے چچا محمد فاروق کے مطابق انہوں نے برطانیہ جانے سے پہلے اپنی ایک کزن سے شادی کر رکھی تھی جن کو انہوں نے بعد ازاں چھوڑ دیا تھا۔ 

پولیس افسر کے مطابق عرفان شریف برطانیہ سے فرار ہو کر پاکستان آیا تو ان کا استقبال بھائیوں نے کیا۔ (فوٹو: سرے پولیس)

جہلم پولیس کے ترجمان کے مطابق 10 اگست کے بعد سے پولیس نے جہلم، راولپنڈی، سیالکوٹ اور میر پور سمیت کئی شہروں میں دو درجن کے قریب چھاپے مارے، تاہم انہیں اب تک ایسا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس سے وہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور بھائی ملک فیصل کے قریب پہنچ سکیں۔ 

عرفان شریف کے بھائیوں نے اس کو ایئر پورٹ سے لیا  

 ایک پولیس افسر کے مطابق عرفان شریف برطانیہ سے فرار ہو کر جب پاکستان آیا تو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال بھائیوں ملک عمران اور ملک ظریف نے کیا جس کے بعد وہ ایک دن اپنے گھر پر مقیم رہا۔ اس دوران انٹرپول کی طرف سے پاکستانی حکام کو ایک خط بھجوایا گیا جس میں عرفان اور اس کے ساتھ برطانیہ سے آنے والے دوسرے افراد کو ڈھونڈنے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ دو روز تک اپنی ایک بہن کے گھر پر رہا اور پھر وہاں سے کہیں اور منتقل ہو گیا۔ 
اس خط کے موصول ہونے کے بعد جہلم پولیس اور کئی دوسرے پاکستانی ادارے ان کو تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی۔ 

پولیس کارروائی میں محتاط 

اس بارے میں پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ اعلٰی حکام ابتدائی طور پر کارروائی میں متذبذب رہے کیونکہ ابھی برطانوی پولیس نے بھی عرفان شریف اور ان کے ساتھ موجود دوسرے لوگوں کو سارہ شریف کی موت کا ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ انہیں ابھی محض مشکوک قرار دیا جا رہا ہے۔ اور انٹرپول کی جانب سے بھیجے گئے خط میں بھی انہیں گرفتار کرنے کا نہیں بلکہ ڈھونڈنے کا کہا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی حکام محتاط رہے کیونکہ ان کو گرفتار کرنے سے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
تاہم برطانوی میڈیا کے مطابق سارہ شریف کی لاش کے قریب سے انہیں بینش بتول کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ ملا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے شوہر نے سارہ شریف پر تشدد کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
برطانوی پولیس کے مطابق سارہ شریف کے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات ہیں، تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کی موت میں کسی خاص چوٹ کے عمل دخل کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس بارے میں عرفان شریف کے خاندان کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ ان کی موت سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 

عرفان شریف کے جہلم میں آبائی گاؤں کڑی کے نمبردار چوہدری عبدالرشید کے مطابق ان کے خاندان کی مجرمانہ تاریخ ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عرفان شریف کی برطانیہ حوالگی میں کئی ماہ لگیں گے 

اسلام آباد میں ایف آئی اے کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ وہ عرفان شریف کو پکڑنے کے لیے زمینی سطح پر کوئی تفتیش نہیں کر رہے، تاہم ان کا انٹرپول شعبہ معاملے کو دیکھ رہا ہے۔ 
ایف آئی اے حکام کے مطابق عرفان شریف کو ڈھونڈنے کے بعد ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے وفاقی کابینہ سے دو مرتبہ منظوری لینی پڑے گی۔ پہلی مرتبہ ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے، کیونکہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کسی مجرم کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اگر وہ پکڑا بھی جائے تو اس کو برطانیہ بھجوانے میں کئی ماہ اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔ 

عرفان شریف کے خاندان کا مجرمانہ ریکارڈ 

عرفان شریف کے جہلم میں آبائی گاؤں کڑی کے نمبردار چوہدری عبدالرشید کے مطابق ان کے خاندان کی مجرمانہ تاریخ ہے اور کچھ عرصہ قبل اس کا بھائی لین دین کے ایک مقدمے میں غبن کے الزام کے بعد فرار ہو گیا تھا، جبکہ عرفان شریف کے والد کو اس وجہ سے چند سال اڈیالہ جیل میں رہنا پڑا تھا۔ بعد ازاں دوسرے فریق سے معاملات طے ہونے کے بعد انہیں رہائی ملی تھی۔ 

شیئر: