Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حراست میں لینے پر‘ لندن پولیس کی خواتین سے معافی، ہرجانہ بھی ادا کیا

پیٹسی سٹیونسن کو پولیس کی طرف سے روکے جانے اور حراست میں لیے جانے کی تصاویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی تھیں (فوٹو: شٹرسٹاک)
لندن میں سارہ ایورارڈ  کی یاد میں مشعل روشن کرنے کی تقریب کے دوران حراست میں لی جانے والی دو خواتین کے وکلا کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان سے معافی مانگ لی ہے اور انہیں ہرجانہ ادا کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق خواتین کی نمائندگی کرنے والی قانونی فرم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میٹرو پولیٹن پولیس نے اب خواتین کی طرف سے سول دعووں کو نمٹا دیا ہے، انہیں ہرجانے کی ادائیگی اور معافی نامہ جاری کر دیا ہے۔‘
دو سال قبل ایک برطانوی پولیس افسر نے سارہ ایورارڈ نامی خاتون کو کورونا وائرس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزام میں ’غلط طور پر‘ گرفتار کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا۔
مارکیٹنگ ایگزیکٹیو سارہ ایورارڈ کو مارچ 2021 میں گھر جاتے ہوئے لندن میں سڑک سے اغوا کر لیا گیا تھا اور کچھ دن بعد ان کی لاش تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور جنگل سے ملی تھی۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے ایلیٹ ڈپلومیٹک پروٹیکشن یونٹ میں کام کرنے والے 48 سالہ وین کوزن نے خاتون کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل کا اعتراف کیا تھا۔
ایورارڈ جو جنوبی لندن کے شہر کلفھم میں اپنے ایک دوست سے ملنے گئی تھی، ان کا گلا گھونٹ دیا گیا اور پھر انہیں آگ لگا دی گئی۔ خاتون کی باقیات اغوا کے ایک ہفتے بعد جنگل سے ملیں۔
سزا سنائے جانے سے قبل دو روزہ سماعت کے بعد پراسیکیوٹر ٹام لٹل نے کہا کہ کوزنز نے 3 مارچ کو 33 سالہ مارکیٹنگ ایگزیکٹو کو نشانہ بنایا اور اس پر کورونا وائرس کے قوانین کو توڑنے کا الزام لگایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوزنز جو ڈیوٹی پر نہ ہونے کے باوجود پولیس بیلٹ پہنے ہوئے تھا، اس نے ایورارڈ کو اپنا وارنٹ کارڈ دکھا کر ہتھکڑیاں لگا کر‘ گرفتار کیا۔

سارہ ایورارڈ کو اغوا کر لیا گیا تھا اور کچھ دن بعد ان کی لاش تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور جنگل سے ملی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

مارچ 2021 میں نیشنل لاک ڈاؤن کے دوران سارہ ایورارڈ نامی خاتون کا لاپتا ہونا برطانیہ کے ہائی پروفائل لاپتا افراد کے کیسز میں سے ایک تھا جس نے سڑکوں پر خواتین کی حفاظت کے بارے میں احتجاج اور بڑے پیمانے پر بحث کو جنم دیا۔
دانیہ العبید اور پیٹسی سٹیونسن، ان مظاہرین میں شامل تھیں جنہیں پولیس حکام نے ’لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی‘ کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
پیٹسی سٹیونسن کو پولیس کی طرف سے روکے جانے اور حراست میں لیے جانے کی تصاویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی تھیں جس کے بعد لندن پولیس پر بڑے پیمانے پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
پیٹسی سٹیونسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچنے میں دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔ ’یہ واقعی ایک تھکا دینے والا اور مشکل عمل رہا ہے لیکن میرے اور ان تمام خواتین کے لیے احتساب اور انصاف کو آگے بڑھانا ضروری تھا جنہوں نے ایک حاضر سروس میٹروپولیٹن پولیس افسر کے ہاتھوں سارہ ایورارڈ کے قتل پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے تقریب میں شرکت کی تھی۔‘
 میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان نے کہا کہ تقریب غیر معمولی حالات میں ہوئی تھی اور ان کے افسران نے نیک نیتی سے کام کیا تھا۔ ’ایک طویل قانونی تنازع کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے، تمام شکایت کنندگان اس واقعے کے نتیجے میں پہلے ہی پریشانی کا سامنا کر چکے ہیں۔  تمام افراد پر اثرات کم کرنے کے لیے سب سے زیادہ مناسب فیصلہ، ایک متفقہ تصفیہ تک پہنچنا تھا۔‘

شیئر: