Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبوک میں ’علی بن رمان قلعہ‘ آثار قدیمہ کے شائقین کی توجہ کا مرکز

علی بن رمان قلعے کے چار گیٹ ہیں۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)
تبوک ریجن کی تیما کمشنری کے سینٹر میں واقع ’علی بن رمان‘ تاریخی قلعہ منفرد طرز تعمیر کے حوالے سے آثار قدیمہ کے شائقین کی توجہ کا محور بن گیا۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق معروف فوٹو گرافر عبدالالہ الفارس نے علی بن رمان قلعے کی شاندار فوٹو گرافی کر کے سوشل میڈیا  کے صارفین میں ہلچل پیدا کر دی۔ 
الفارس کا کہنا ہے کہ ’یہ قلعہ تبوک ریجن  کی تیما کمشنری کے البلدۃ القدیمہ محلے میں واقع ہے۔ یہ تاریخی کنویں ھداج سے تقریبا پانچ سو میٹر کے فاصلے  پر ہے۔ یہ  نخلستانوں پر پرکشش منظر کے ساتھ سایہ فگن ہے۔‘

علی بن رمان قلعہ 1720 میں تعمیر کیا گیا۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

الفارس کا کہنا ہے کہ ’علی بن رمان قلعہ مستطیل شکل کا ہے یہ گارے اور مٹی سے تیار کردہ ہے۔ اس کی چھتوں میں کھجور کی چھال اور درختوں کی شاخیں استعمال کی گئی ہیں۔‘
الفارس نے بتایا  کہ ’علی بن رمان قلعہ تین منزلہ ہے۔ پہلی اور دوسری منزل رہائش کے لیے مختص ہے یہ مستطیل شکل کے متعدد کمروں پر مشتمل ہے۔‘
فوٹو گرافر کا کہنا تھا کہ ’تیسری منزل چھت والی ہے۔ یہاں بیرونی مہمان خانہ ہے جس میں کشادہ بیٹھک اور رہائش کے لیے اضافی کمرہ  بنا ہوا ہے۔‘
معروف فوٹو گرافر نے بتایا کہ ’علی بن رمان قلعے کے چار گیٹ ہیں۔  بڑا دروازہ داخلی صحن کی جانب کھلتا ہے جہاں مہمان خانہ اور مہمانوں کا استقبالیہ ہال ہے۔ گودام اور دیگر مختلف راستے بھی ہیں۔‘
الفارس نے بتایا کہ ’علی بن رمان قلعہ 1720 میں تعمیر کیا گیا۔ اس کا کل رقبہ 800 میٹر سے زیادہ کا ہے۔‘
الفارس نے توجہ دلائی کہ ’علی بن رمان اس قلعے کے بانی ہیں۔ کئی سیاح اور مشرقی علوم کے ماہر اس کی سیر کے لیے آ چکے ہیں۔‘
عبدالالہ الفارس کا کہنا ہے کہ ’ان سیاحوں نے اپنے سفر نامے میں اس قلعے کا تعارف پیش کیا ہے اور تصاویر بھی شائع کی ہیں۔‘
فوٹو گرافر کا کہنا تھا کہ ’ان میں فرانس کے جیوسن اور سیونک 1908 میں آئے  تھے۔ یہ علی بن رمان قلعے اور تیما کی تصاویر شائع کرنے والے پہلے سیاح ہیں۔‘
الفارس نے مزید بتایا کہ ’ان کے بعد 1910 میں برطانوی سیاح ڈگلس کیروتھس آئے تھے جبکہ 1950 میں انگریز سیاح ہیری سینٹ فلپ تیما پہنچے تھے۔‘
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: