Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈکپ: اس بار پاکستان کا بیڑا پار کرنے کا سارا بوجھ بلے بازوں کے کندھوں پر

پاکستان اپنی ورلڈ کپ کی مہم کی شروعات 6 اکتوبر کو نیدرلینڈز کے خلاف احمد آباد میں کرے گا۔ (فوٹو: روئٹرز)
بولنگ اگرچہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہمیشہ سے مضبوط ترین شعبہ رہا ہے لیکن اس بار انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں شاید ایسا نہ ہو، اس لیے پاکستان کا بیڑا پار کرنے کا تمام تر بوجھ پاکستانی بیٹرز خصوصاً کپتان بابر اعظم کے کندھوں پر آ گیا ہے۔
پاکستان کی بولنگ اس بار کلک نہیں کر پا رہی ہے اس لیے باہر اعظم اور باقی بیٹرز کے کندھوں پر اب پاکستان کو ون ڈے ورلڈ کپ کا دوسرا ٹائٹل دلوانے کی ذمہ داری آ گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان ایک ماہ قبل تک ون ڈے کی نمبر ون ٹیم تھی اور بابر الیون حالیہ ایشیا کپ کی شروعات میں فیورٹ سمجھی جا رہی تھی۔ لیکن روایتی حریف انڈیا اور سری لنکا سے شکست نے نہ صرف پاکستان کے فیورٹ سٹیس کو دھچکا لگایا بلکہ گرین شرٹس کے لیے نئی تشویش اور خدشات بھی پیدا کیے۔
فاسٹ بولر نسیم شاہ انڈیا کے خلاف میچ میں اپنا کندھا زخمی کرا بیٹھے جس کے بعد وہ ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے۔ نسم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی پاکستان کے لیے نئے بال کی خطرناک ترین جوڑی ثابت ہوئے ہیں۔
نسیم شاہ کی جگہ حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن اس بار پاکستان ابتدائی اوور میں جلد وکٹ کے لیے شاہین شاہ آفریدی پر بہت زیادہ انحصار شاید نہ کرے۔
پاکستان کے سپنرز خصوصاً نائب کپتان شاداب خان بھی ایشیا کپ میں وکٹ کے لیے کافی جدوجہد کرتے نظر آئے۔ تاہم کپتان بابر کو اپنے پلیئرز پر پورا بھروسہ ہے جنہوں نے ٹیم کو ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بنایا تھا۔
انڈیا روانگی سے قبل بابر نے کہا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے فیلڈنگ میں غلطیاں کیں اور درمیانی اوورز میں وکٹ لینے کی ہماری صلاحیتیں ماند پڑ گئی تھیں لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور امید ہے ان کو نہیں دہرائیں گے۔‘

پاکستان ابتدائی اوورز میں جلد وکٹ کے لیے شاید شاہین شاہ آفریدی پر مکمل انحصار نہ کرے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جب بابر سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان اگر ورلڈ کپ مہم کا احتتام سیمی فائنل پر کرتا ہے تو کیا یہ اچھی کارکردگی ہو گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ٹاب فور میں آنا تو ہمارے لیے بہت چھوٹی بات ہے ہم انڈیا سے فاتح بن کر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستانی ٹیم کسی ٹورنامنٹ میں خدشات کے ساتھ جا رہی ہے لیکن انڈیا میں ٹیم کو کچھ زیادہ ہی محنت کرنا پڑے گی کیونکہ پاکستان کو جیو پولیٹکل صورتحال کی وجہ سے ایک انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔
جنوبی ایشیائی پڑوسیوں میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے دوطرفہ کرکٹ کئی سالوں سے نہیں ہو رہی ہے اور دونوں ٹیمیوں کا آمنا سامنا صرف بڑے ٹورنامنٹ میں ہی ہوتا ہے۔
پاکستان نے انڈیا کا دورہ آخری مرتبہ 2016 کے ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے کیا تھا اور پاکستانی کھلاڑی انڈین پریمئیر لیگ میں بھی شریک نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو انڈیا کی کنڈیشنز کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات ہو گی لیکن بابر اعظم اس سے پریشان نہیں۔

جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان سیاسی تناؤ کی وجہ سے دوطرفہ کرکٹ کئی سالوں سے نہیں ہورہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’گو کہ ہم نے اس سے پہلے انڈیا میں نہیں کھیلا ہے لیکن اس وجہ سے ہم کسی قسم کے دباؤں کا شکار نہیں۔‘
’ہم نے اپنی تحقیق کی ہے اور سنا ہے کہ وہاں کی صورتحال ماسوائے چنئی کے پاکستان جیسی ہے۔‘
پاکستان اپنی ورلڈ کپ کی مہم کی شروعات چھ اکتوبر کو نیدرلینڈز کے خلاف احمد آباد میں کرے گا جس کے سارے ٹکٹس بِک چکے ہیں۔

شیئر: