Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں وارداتیں، کچے کے ڈاکو پھر سے سرگرم؟

سندھ اور بلوچستان کی سرحدی علاقے میں کچھ عرصے سے جرائم پیشہ افراد کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے (فوٹو: پکسابے)
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے مضافاتی علاقوں میں اندرون سندھ کچے کے علاقے کی طرز پر واداتیں ہونے لگیں، جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح ملزمان سندھ اور بلوچستان کےسرحدی علاقوں میں ناکے لگا کرلوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ 
لوٹ مار کا شکار ہونے والے شہری واقعات کی رپورٹ درج کروانے کے لیے بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، متاثرین کے مطابق سندھ پولیس کہتی ہے کہ واردات کا علاقہ صوبہ بلوچستان کی حدود میں آتا ہے مقدمہ سندھ میں درج نہیں ہو سکتا۔  
کراچی کے علاقے لانڈھی کے رہائشی محمد عمیر نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب وہ اور ان کے دوست اپنے گھر لانڈھی سے زیارت کے لیے درگارہ شاہ نورانی جانے کے لیے نکلے تھے۔ راستے میں تمام دوست خوشگوار ماحول میں ہنسی مذاق کرتے جا رہے تھے۔
ان کے مطابق ’سفر لمبا ہونے کی وجہ سے تمام دوستوں نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا رکھی تھیں اور پرانے نئے قصّے سناتے ہم ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب جارہے تھے کہ اچانک رات کے اندھیرے میں تقریباً دو بجے کے قریب منگھو پیر ہمدرد یونیورسٹی کے قریب کسی نے ٹارچ لائٹ گاڑی کے شیشے پر مارتے ہوئے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا، ڈائیور نے گاڑی روک دی۔ ہمیں لگا پولیس کا ناکہ ہے اور معمول کی چیکنگ کے لیے گاڑی روکی گئی ہے۔ ڈرائیور نے جیسے ہی گاڑی روکی پانچ سے چھ مسلح افراد گاڑی کے قریب آئے اور انہوں نے ڈرائیور کے سر پر بندوق رکھ کر سب کو گاڑی سے اترنے کا کہا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گاڑی سے ہم سب نیچے اترے تو ہم نے دیکھا کہ ان مسلح افراد میں کوئی بھی فرد وردی میں نہیں ہے، جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ پولیس نہیں بلکہ ڈکیت ہیں، اور ہم ان کے چنگل میں پھنس گئے ہیں، مسلح افراد میں سے تین آگے بڑھے اور انہوں نے ہماری تلاشی لینی شروع کر دی۔ میرے دوست نے مزاحمت کی تو ان میں سے ایک شخص نے اسے تھپڑ مار دیا۔‘
’مسلح ملزمان نے ہم پر بندوق تان کر کہا کہ اگر کسی نے ذرا بھی حرکت کی تو اسے گولی ماردیں گے، اس کے بعد ہم تمام دوست ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے، ڈاکوؤں نے ہم سے موبائل فون لیے، دوستوں کے پاس کچھ پیسے تھے وہ لیے اور ہمیں نیچے اُتار کر ہماری گاڑی اپنے ہمراہ لے گئے۔ ہم کافی دیر وہیں اندھیرے میں ہی بیٹھے رہے اور صبح کی روشنی ہونے پر ایک گاڑی سے مدد لی اور واقعے کی پولیس کو رپورٹ دی۔‘  
زبیر نے بتایا کہ اس واردات کے بعد انہیں اور پریشانی تب ہوئی جب کراچی کے علاقے گڈاپ کے پولیس سٹیشن نے ان کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا۔ زبیر کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں کارروائی ہوئی ہے وہ علاقہ سندھ کی سرحد سے باہر ہے اور صوبہ بلوچستان کے علاقے ساکران کی حدود میں آتا ہے اس لیے مقدمہ یہاں درج نہیں ہوسکتا۔  
واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان کی سرحدی علاقے میں کچھ عرصے سے جرائم پیشہ افراد کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس روٹ پر پکنک اور زیارت کے لیے جانے والے افراد کو سفری سہولیات فراہم کرنے والے ٹرانسپورٹر محمد شہباز نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اس علاقے میں وارداتیں معمول بن گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں اب تک ان کے بس اڈے کی پانچ گاڑیاں لوٹی جا چکی ہیں۔ جس میں سوار خواتین بچوں سمیت دیگر افراد سے مسلح ملزمان نہ صرف موبائل فون اور نقدی لوٹ کر گئے بلکہ خواتین سے زیور بھی لوٹے گئے ہیں۔  

محمد شہباز کے مطابق ملزمان گاڑی، موبائل فون اور دیگر اشیا چھین کر فرار ہو گئے (فوٹو: کرائم بیٹ)

انہوں نے مزید بتایا کہ دو ہفتے قبل حسن پیر کے علاقے سے کچھ فاصلے پر چند افراد نے کلاشنکوف کے زور پر ایک گاڑی کو روکا، ملزمان نے گاڑی کے ڈرائیور کو سیٹ سے ہٹا کر خود گاڑی چلائی اور تمام افراد کو اغوا کرتے ہوئے اپنے ہمراہ نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ملزمان نے شہریوں کی گاڑی بھی چھین لی اور چھ افراد کے موبائل فون، پیسے کپڑے جوتے سب چھین کرانہیں ویرانے میں باندھ کرساکران کے کچے راستے کی طرف فرار ہو گئے۔
ٹرانسپورٹر کا کہنا ہے کہ ساکران پولیس کو واقع کی تفصیل بتائی اور گاڑی کے ٹائر کے نشانات دکھاتے ہوئے رپورٹ درج کروانی چاہی تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بجائے انوکھی منطق پیش کی کہ دو دن بعد ڈاکو خود رابطہ کرلیں گے۔ 
سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ کون سا ہے؟ 
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کو بلوچستان سے ملانے والا علاقہ حب ہے، عام طور پر سندھ سے بلوچستان جانے والے منگھو پیر، نادرن بائی پاس اور گڈاپ کے علاقے سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ راستہ شہر کے ضلع غربی، وسطی، شرقی، جنوبی، ملیر اور گورنگی سے قریب پڑتا ہے۔ بلوچستان میں مزارات پر زیارتوں اور تفریحی مقامات پر جانے والے افراد اکثر انہی راستوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان جاتے ہیں۔  
سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ کیسا ہے؟ 
سندھ اور بلوچستان کو ملانے والے علاقوں میں منگھوپیر اور گڈاپ شامل ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر فارم ہاوسز اور کچے گاؤں موجود ہیں۔ رقبے کے حساب سے یہ علاقہ کئی سو کلو میٹر پر محیط ہے، اس علاقے میں جگہ جگہ جھاڑیاں اور جنگل کے طرز کے چھوٹے بڑے راستے موجود ہیں، محدود آبادی ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں صرف مرکزی سڑکیں ہی پکی ہیں۔ باقی تمام راستے کچے ہیں۔ حب ڈیم سے منسلک اس علاقے میں ایک نہر موجود ہے جو حب ڈیم سے کراچی شہر کو 100 ملین گلین پانی یومیہ بنیادوں پر فراہم کرتی ہے۔ اس نہر کے ساتھ ساتھ سڑک چلتی ہے اور اسی راستے پر حب ڈیم سے قبل ہمدرد یونیورسٹی کا کیمپس بھی موجود ہے۔ یہ سڑک سندھ کے علاقے گڈاپ سے بلوچستان کے علاقے ساکران کو ملاتی ہے اور درگاہ شاہ نورانی اور حسن پیر سمیت دیگر مقامات پر جانے والی شہری اس سڑک سے ہوتے ہوئے ان مقامات پر پہنچتے ہیں۔  
ان علاقوں میں کارروائی کرنے والے گروہ کا تعلق کہاں سے ہے؟ 

کراچی کے علاقے گڈاپ میں گذشتہ ایک ماہ میں 100 سے زائد شہریوں سے لوٹ مار اور متعدد گاڑیاں چھینی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)

واردات کے بعد متاثرین کو پولیس کی جانب سے بتایا  گیا تھا کہ گڈاپ، حب ڈیم روڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں وارداتوں میں ملوث گروہ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ملزمان بلوچستان سے ان علاقوں میں آتے ہیں اور کارروائی کرکے واپس ساکران بلوچستان کی طرف فرار ہوجاتے ہیں۔  
پولیس کا موقف  
کراچی کے علاقے گڈاپ میں گذشتہ ایک ماہ میں 100 سے زائد شہریوں سے لوٹ مار اور متعدد گاڑیاں چھیننے پر اُردو نیوز کی جانب سے ایس ایچ او گڈاپ پولیس سٹیشن سے اور دیگر متعلقہ پولیس افسران سے متعدد بار رابطہ کیا گیا، تاہم ان کی جانب سے معاملے پر موقف نہیں دیا گیا۔ 
یاد رہے کہ نگراں حکومت کے قیام کے بعد نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقرنے سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں نگراں صوبائی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سندھ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کرنے جا رہے ہیں اور کچے کے علاقے میں حکومت تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
حکومتی اداروں کی جانب سے ابتدائی طور پر کچھ کارروائیاں ہوتی نظر آئیں، لیکن اب ایک بار پھر سندھ کے کچے کے علاقے اور کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں میں ڈاکو سرگرم ہو گئے ہیں۔ جہاں کراچی شہر میں اغوا کی وارداتیں رپورٹ ہو رہی ہیں وہیں سندھ کے کچے کے علاقے میں بھی اغوا کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔
رواں ہفتے سندھ کے علاقے شکار تحصیل خانپور کے کچے کے علاقے میں واقع کوٹ شاہ ہو پولیس سٹیشن پر ڈاکوؤں نے حملہ کرکے ایس ایچ او تھانہ شاہ ہو محبوب بروہی اور ہیڈ محرر سمیت پانچ افراد کو اغوا کرلیا تھا۔ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ  نے واقعے پر شدید برہمی اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی بازیابی کے احکامات دیے ہیں۔ 

شیئر: