Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

22 برس سے راہ تکتی ماں، ’مجھے ہڈیاں ہی دکھا دیں‘

سات مئی 2002 کی شام رانی بی بی کا بیٹا کام سے واپس آیا تو پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اس روز اسے تنخواہ ملی تھی۔
رانی بی بی اپنے بیٹے ندیم قیصر سے اِس لیے بے پناہ محبت کرتی تھیں کہ وہ دیگر بچوں کی طرح بے راہ روی کا شکار نہیں ہوا تھا۔ وہ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے بچ کر زندگی گزار رہا تھا اور وقت پر اپنی ماں کو اپنی تنخواہ دے دیا کرتا تھا۔
سنہ 2002 میں ندیم قیصر مقامی فیکٹری میں سینیئر کاریگر کے طور پر کام کر رہا تھا جس کے عوض اُسے تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس فیکٹری کے ساتھ وہ گذشتہ کئی برسوں سے منسلک تھا لیکن اِس بار وہ تنخواہ لینے کے بعد کسی بات پر پریشان تھا جس کی وجہ سے اُس نے کام پر جانا بند کر دیا تھا۔
ندیم قیصر کی والدہ رانی بی بی اپنے بیٹے کو ہر روز فیکٹری پر جاتے ہوئے پانچ روپے کھانے کے لیے دیا کرتی تھیں۔
رانی بی بی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرا بیٹا پانچ روپے میں کنٹین سے کھانا کھا لیتا تھا اور فیکٹری سے چھٹی پر سیدھا گھر آجاتا تھا۔ سات مئی کو تنخواہ لینے کے بعد وہ فیکٹری جانے سے کتراتا رہا اور کئی دنوں تک فیکٹری نہیں گیا۔
’میرا بیٹا کئی دنوں سے کام پر نہیں جا رہا تھا۔ ایک دن فیکٹری سے اُس کے کچھ دوست آئے اور اس سے کہا کہ اسے فیکٹری مالک نے کام پر بلایا ہے۔ یہ واضح نہیں تھا کہ ندیم قیصر کیوں فیکٹری نہیں جانا چاہتا تھا۔
20 مئی 2002 کو ندیم گھر پر ہی تھا جب فیکٹری مالک نے اسے دوبارہ کام پر آنے کے لیے کہا۔
اس نے اگلے روز فیکٹری جانے کا فیصلہ کیا۔ صبح سات بجے کے قریب اس نے ناشتہ کیا اور اپنی والدہ سے پانچ روپے لے کر گھر سے نکل گیا۔ اُس کی والدہ رانی بی بی کے بقول وہ خوش تھیں کہ ان کا بیٹا کام پر دوبارہ چلا گیا ہے اور اب معاملات درست ہو جائیں گے۔
رانی بی بی نے اپنے بیٹے کو رخصت کیا اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔ ہر گزرتے لمحے انہیں یہ خیال آتا کہ کسی بھی وقت ان کا بیٹا گھر واپس آ سکتا ہے اس لیے انہوں نے ذہن بنا لیا تھا کہ ندیم قیصر کے گھر آنے پر اسے کھانا دیں گی لیکن انہیں کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اُن کا بیٹا کب آئے گا۔
دن سے رات ہو گئی، سورج ڈھل چکا تھا اور رانی بی بی کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔
جب ندیم قیصر رات تک بھی گھر نہ لوٹا تو تمام گھر والوں کو فکر ہونے لگی اور انہوں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا۔

رانی بی بی نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے صرف اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

رانی بی بی اُس دن کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمیں بہت فکر ہو رہی تھی کیونکہ اُس کا فیکٹری نہ جانا اور پھر جا کر یوں واپس نہ لوٹنا تکلیف دہ تھا۔ ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کیا لیکن وہ نہیں مل رہا تھا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ فیکٹری میں ہو گا۔ ہم نے فیکٹری میں بھی اس کا پتہ کیا لیکن ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ تو فیکٹری آیا ہی نہیں تھا۔‘
فیکٹری مالکان نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ ’سات مئی 2002 کو تنخواہ لینے کے بعد ندیم قیصر فیکٹری واپس نہیں آیا۔
عدالتی دستاویزات اور اگلے روز درج کیے جانے والی ایف آئی آر میں ندیم قیصر کے والد حنیف مسیح کا بیان درج ہے۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ’ندیم قیصر کو فیکٹری کے مالک یا فیکٹری مالک کی خاتون سیکریٹری نے اغوا کیا ہے۔‘ جس کے بعد مقدمے میں نامزد ملزمان متعدد بار تفتیش کے عمل سے گزرے۔
فیکٹری مالک نے حنیف مسیح کے تمام تر الزامات کو مسترد کیا اور تفتیش میں بھی معاونت فراہم کی۔ سنہ 2002 کے بعد اس حوالے سے بارہا تفتیش ہوئی اور انکوائری کی گئی لیکن تب سے لے کر آج تک 22 برس گزر گئے لیکن ندیم قیصر کو بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔
مغوی ندیم قیصر کی والدہ رانی بی بی کے وکیل محمد مدثر چودھری نے اُردو نیوز کو بتایا کہ وہ اس کیس کو کافی عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔
’اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ لاپتہ ندیم قیصر کی بجائے فیکٹری مالکان ہی غائب ہو گئے ہیں۔ وہ آج کل نہ تو عدالت آ رہے ہیں اور نہ ہی اس کیس میں ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے۔

فیکٹری مالکان نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ ’سات مئی 2002 کو تنخواہ لینے کے بعد ندیم قیصر فیکٹری واپس نہیں آیا۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

ندیم قیصر کے خاندان نے انہیں تلاش کرنے کے لیے پوری کوشش کی مگر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
اس دوران ندیم قیصر کے والد حنیف مسیح اور فیکٹری مالک بھی انتقال کر گئے۔ حنیف مسیح عدالتوں میں پیش ہوتے رہے تھے لیکن اب یہ ذمہ داری رانی بی بی کے کندھوں پر آ چکی ہے۔
رانی بی بی گذشتہ 22 برسوں سے پیش آنے والی پریشانیوں اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر اس مقدمے کی پیروی کے دوران وفات پا گئے۔ میری بینائی متاثر ہوئی ہے، میرے آنسو خشک ہو چکے ہیں لیکن میرا بیٹا بازیاب نہیں ہو سکا۔‘
انہوں نے عدالتی کارروائی سے متعلق اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے صرف اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے کوشاں ہیں۔
’میں ہر پیشی پر عدالت آتی ہوں، عدالتوں کے دروازے اور کھڑکیاں دیکھتی ہوں لیکن ان میں سے کوئی بھی دروازہ مجھے انصاف کی فراہمی کے لیے نہیں کھل رہا۔‘ یہ کہتے کہتے وہ رونے لگیں اور اپنے نوجوان بیٹے کو یاد کرنے لگیں۔
وکیل محمد مدثر چودھری کے مطابق ’پہلے تو 17 برس تک لاپتہ ندیم قیصر کا چالان ہی نہیں کٹا۔ میرے پاس جب یہ کیس آیا تو اُس وقت تک اس کا چالان نہیں کٹا تھا۔ عموماً 17 دنوں میں چالان کٹ جاتا ہے لیکن یہاں 17 سال تک چالان کٹنے کے بغیر ہی تمام معاملات چلتے رہے۔‘

رانی بی بی نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے بھی ملاقات کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کیس اور رانی بی بی سے متعلق مزید بتایا کہ ’رانی بی بی نے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ وہ ججز کے گھروں تک پہنچیں۔ افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس تھے تو انہوں نے لاپتہ افراد کا سو موٹو لیا تھا جس میں ان کا کیس بھی آ گیا تھا لیکن پھر اداروں کی آپسی لڑائی کے باعث افتخار چوہدھری معطل ہو گئے اور یہ کیس بھی التوا کا شکار ہو گیا۔‘
’افتخار چودھری جب ریٹائر ہوئے تو رانی بی بی خود ان کے گھر گئیں اور اُن سے ملاقات کر کے سارا مدعا بیان کیا جس کے بعد انہوں نے مجھے کال کر کے اس کیس پر کام کرنے کے لیے کہا۔‘
محمد مدثر چودھری نے مزید بتایا کہ ’ابھی تک جتنی کارروائی ہوئی ہے اُس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ندیم قیصر اس وقت زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘
رانی بی بی کی زندگی کے 22 برس اس کیس کی پیروی میں گزر گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میرا بچہ زندہ ہے یا نہیں لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اگر نہیں ملتا تو کم از کم اُس کی ہڈیاں ہی مجھے دکھا دیں تاکہ مجھے تسلی ہو جائے۔
اپنے بیٹے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میرا بیٹا بہت سیدھا سادہ تھا وہ کوئی نشہ بھی نہیں کرتا تھا اور جس دن وہ کام کے لیے گھر سے نکلا تو اس کی عمر زیادہ نہیں تھی، اب معلوم نہیں وہ کس حال میں ہو گا۔ وہ اگر زندہ ہوا تو میں اسے پہچان بھی نہیں سکوں گی۔

رانی بی بی کی زندگی کے 22 برس اس کیس کی پیروی میں گزر گئے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

رانی بی بی کے بیٹے کو غائب ہوئے 22 برس ہو گئے ہیں اور وہ اس ضعیف العمری میں صرف اس لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے ان کی امید بر آئے۔ ان کے چہرے پر پڑی جھریوں کی ہر لکیر 22 برسوں کی داستان سنا رہی ہے اور ان کے آنسو اب تب ہی بہیں گے جب ان کی اپنے بیٹے سے ملاقات ہو گی۔
یہی امید لیے آج بھی رانی بی بی لاہور کے سیشن کورٹ آتی ہیں لیکن ہر گزرتا دن 20 مئی 2002 کی طرح گزر جاتا ہے لیکن ان کا بیٹا لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

شیئر: