تاش کی ’تین پتی‘ میں کروڑوں ہارنے کے بعد اپنے ہی اغوا کے ڈرامے کا ڈراپ سین
تاش کی ’تین پتی‘ میں کروڑوں ہارنے کے بعد اپنے ہی اغوا کے ڈرامے کا ڈراپ سین
جمعرات 14 ستمبر 2023 14:50
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب اور سندھ پولیس کے اس مشترکہ آپریشن کا مقصد وسیم نامی شخص کو اغوا کنندگان کے چنگل سے چھڑوانا تھا (فوٹو: سندھ پولیس)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سجاول میں صبح کے چار بجے ایک ہوٹل کو پولیس نے گھیر لیا۔ ہوٹل انتظامیہ سے کمروں کے رہائشیوں کا ڈیٹا لینے کے بعد ایک کمرے میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔
ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو بتایا تھا کہ یہاں ایک شخص ہی کئی دنوں سے رہائش پذیر ہے۔ پولیس ایک مغوی شخص کو رہا کروانے کے لیے یہ آپریشن کر رہی تھی جو گذشتہ چار مہینے سے اغوا تھا۔
پنجاب اور سندھ پولیس کے اس مشترکہ آپریشن کا مقصد وسیم نامی شخص کو اغوا کنندگان کے چنگل سے چھڑوانا تھا۔
پولیس کے مطابق اغوا کار اس شخص کے خاندان سے سات لاکھ روپے تاوان لے چکے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اندر سے کوئی حرکت نہ ہوئی تیسری دفعہ دروازے پر دستک دی گئی تو ایک شخص کی اندر سے آواز آئی اور ساتھ ہی اس نے دروازہ کھول دیا۔
پولیس نے فوری اس شخص کو قابو کرتے ہوئے اس کا موبائل فون اور شناختی کارڈ لیا تو اس بات کا پتا چلا کہ یہ وہی مغوی ہے جس کو پولیس ڈھونڈ رہی تھی۔ لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔
پنجاب پولیس نے وسیم نامی شخص کو حراست میں لینے کے بعد تفتیش شروع کی تو بات ڈیڑھ سال پہلے تین پتی نامی گیم تک پہنچ گئی۔
ایس پی سی آئی اے نارتھ فرقان بلال نے معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’وسیم کا تعلق مانسہرہ کے علاقے سے ہے اور پچھلے دس سال سے لاہور کے مصری شاہ کے علاقے میں پرانے لوہے کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔ چار مہینے پہلے یہ اغوا ہوا تو اس کے اغوا کاروں نے اس کے گھر والوں سے سات لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی۔ وسیم کے باپ کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ لیکن اس کہانی کا کوئی سرا ابتدا میں نہیں مل رہا تھا۔ ’اغوا کار‘ اس کے گھر والوں سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرتے تھے۔ اور تاوان وہ بھی لے چکے تھے۔ اس کی اپنی سم اور موبائل لاہور سے نکلتے ہی بند ہو چکے تھے۔‘
دوران تفتیشن وسیم نے پولیس کو بتایا کہ ڈیڑھ سال پہلے انہیں فیس بک پر تین پتی نامی ایک آن لائن گیم کا اشتہار نظر آیا اور انہوں نے اپنے موبائل فون پر پلے سٹور سے یہ گیم ڈاون لوڈ کی۔ اور سب سے پہلے بیس روپے کا جوا کھیلا۔ پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق ’بیس روپے ہارنے کے بعد پچاس سو اور پھر ہزار تک بات پہنچی اور پہلے ہی ہفتے میں نے 28 ہزار روپے جیتے بھی۔‘
ہار اور جیت کے اس کھیل میں وسیم کو اس بات کی تب سمجھ لگی جب وہ اپنی ذاتی جمع پونجی تقریبا پچاس لاکھ روپے اس گیم میں ہار چکے تھے۔
مصری شاہ کی لوہے کی مارکیٹ میں وہ ایک بڑے کاروباری تھے۔ اور ان کے ہاں کئی تاجروں نے کمیٹیاں بھی ڈالی ہوئی تھیں۔ پہلی تین کمیٹیاں اپنی ہونے کی وجہ سے انہوں نے مزید ڈیڑھ کروڑ روپیہ اس گیم کی نذر کر دیا۔
اغوا کا ڈرامہ کیوں؟
پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وسیم کا کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے میں پیسے ہار رہا تھا، میں ڈپریشن کا شکار بھی ہونا شروع ہو گیا۔ مجھے ہر بار یہی لگتا تھا کہ اگلی بار جیت جاوں گا۔ لیکن میں اس چنگل سے نہیں نکل سکا۔ لوگوں کی کمیٹیوں کا پیسہ بھی اس گیم میں لگا چکا تھا تب میں نے اپنے آپ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور گھر والوں کو یہی بتایا کہ میں وصولیوں کے لیے جنوبی پنجاب کے علاقے میں جا رہا ہوں۔ اور اس کے بعد میں اپنے فون کو سب سے پہلے بند کیا اور سم پھینک دی۔‘
وسیم نے کاروباری وصولیوں کی رقم لینے کے بعد اپنی سم کو پھینکا اور وہ رقم بھی تین پتی گیم میں لگا دی۔ اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ کا رخ کیا۔ ایس پی سی آئی اے فرقان بلال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئٹہ پہنچ کر اس نے پہلی بار اپنے گھر والوں کو اغوا کار بن کر رابطہ کیا۔ اور ساتھ اپنی کچھ ایسی تصاویر بھیجیں جن میں بظاہر ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔‘
ایک ہی وقت میں دو رول
پولیس کی تفتیش میں یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ کوئٹہ پہنچ کر وسیم نے بیک وقت مغوی اور اغواکاروں کا کردار خود ہی نبھایا۔ فرقان بلال بتاتے ہیں کہ ’اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے واٹس ایپ پر اپنی ہی تشدد زدہ تصاویر بھیجیں۔ یہ اپنے فون کو سامنے رکھ کے اپنی ہی التجا کرتے اور روتے ویڈیو بناتا اور پھر اس ویڈیو سے تصاویر کے سکرین شاٹ لے کر اپنے گھر بھیجتا۔ جس سے اس کے گھر والے اور پریشان ہو جاتے۔‘
اس دوران وسیم نے کئی دفعہ اپنی لوکیشن تبدیل کی کوئٹہ سے تربت اور پھر سندھ کے علاقے ٹھٹھہ کا رخ کیا۔ انہوں نے ان علاقوں کا انتخاب کیا جو جرائم پیشہ افراد کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری طرف لاہور پولیس اس پراسرار اغوا کے محرکات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ تب یہ کیس سی آئی اے کے سپرد کر دیا گیا۔
پولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟
سی آئی اے کے ہاتھ پہلا سرا اس وقت آیا جب وسیم کے گھر والوں نے سات لاکھ روپے بھیجے۔ انہوں نے ڈیجیٹل کرنسی اکاونٹ بیانس کے ذریعے یہ پیسے منگوائے۔
ایس پی سی آئی اے کے مطابق ’بیانس میں ڈالرز میں پیسے حاصل کرنے کے بعد ملزم نے وہ رقم روپے میں کیسے حاصل کی یہی وہ نقطہ تھا جب ہمیں اندازہ ہونا شروع ہو گیا کہ یہ کوئی فراڈ والی صورت حال ہے۔ ان کے دو اپنے بینک اکاونٹ میں اس دوران استعمال ہوئے۔ ہم چار ایسے افراد تک بھی پہنچے جنہوں نے ڈالروں کو روپوں میں تبدیل کیا اور بیانس اکاونٹ کو استعمال کرنے میں وسیم کی مدد کی لیکن ان کا اس جرم سے کئی واسطہ ثابت نہیں ہوا۔‘
تکنیکی طور پر ملزم وسیم لیکن یہ بات نہ سمجھ پائے کہ پولیس اب ان کے تعاقب میں ہے۔ دوران تفتیش اپنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ اپنے ہی اغوا کے تاوان کے طور پر منگوائے گئے سات لاکھ بھی وہ تین پتی گیم کے جوئے میں ہار گئے۔
ٹھٹہ سے وسیم نے سندھ کے شہر سجاول کا رخ کیا۔ لیکن اس وقت تک پنجاب، بلوچستان اور سندھ کی پولیس کو ان کے بارے میں بہت معلومات مل چکی تھیں۔
فرقان بلال بتاتے ہیں کہ ’رقوم کے تبادلے اور تین پتی کھیلنے کی وجہ سے ان کی لوکیشن اب ہمارے پاس آ چکی تھی۔ لیکن ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ خود ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ یہ اس کے اغوا کار بھی ہو سکتے تھے اس لیے ہم بہت زیادہ محتاط تھے۔ سجاول میں ہم نے کئی دن گزارے اور بالاخر ہم اس حجام تک پہنچ گئے جہاں اس نے ایک روز قبل کٹنگ کروائی تھی اور پھر اس علاقے کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کو کھنگالنے کا فیصلہ کیا۔‘
چار مہینے بعد آخر کار تین صوبوں کی پولیس نے خودکار مغوی کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ وسیم اس وقت لاہور پولیس کی تحویل میں ہیں اور اس بات کی ہر طرح سے تفتیش کی جا رہی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی شخص تو ملوث نہیں تھا۔