Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس کی قید میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کے لیے ’وقت جیسے تھم سا گیا‘

حماس نے 242 افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کے لیے وقت جیسے تھم سا ہو گیا۔ اسرائیلی شہری یونی اشر بھی 7 اکتوبر سے اسی کشمکش اور ذہنی تکلیف میں مبتلا ہیں جب حماس نے 242 افراد کو اغوا کیا تھا جس میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹیاں بھی شامل ہیں۔
یونی اشر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے والے دن وہ تل ابیب میں اپنے گھر میں تھے جبکہ ان کی اہلیہ ڈورون دو بیٹیوں راز اور ایویو کے ہمراہ اپنی والدہ کو ملنے گئی ہوئی تھیں جو نیر اوز کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
غزہ کی سرحد پر واقع نیر اوز کا علاقہ 400 گھروں پر مشتمل ہے جو حماس کے حملے کی زد میں رہا۔ نیر اوز میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ کم از کم 75 کو اغوا کیا گیا۔
حماس کے حملے میں 14 سو اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 9 ہزار 500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حملے کی خبریں میڈیا پر چلنا شروع ہوئیں تو ایک ویڈیو میں یونی اشر کو اپنی فیملی بھی دکھائی دی جنہیں عسکریت پسند ایک گاڑی میں بٹھا کر لے جا رہے تھے۔
یونی اشر نے اپنی ساس افرت کو بھی ایک ویڈیو میں زندہ حالت میں دیکھا لیکن اس کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیلی فوج نے ہلاکتوں کے حوالے سے بیان جاری کیا جس میں افرت کا نام بھی شامل تھا۔
یونی اشر نے اپنی کیفیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ’میں نہ کام کرتا ہوں، نہ سوتا ہوں۔ میں زندہ رہنے کے لیے بمشکل کھا پی رہا ہوں۔‘
ٹی وی پر چلنے والی ویڈیوز ہی یونی اشر کے لیے اپنی اہلیہ اور بچوں کے زندہ ہونے کا ثبوت ہیں۔

اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

7 اکتوبر کے اس واقعے کے بعد سے یونی اشر نے اپنی نوکری بھی ترک کر دی اور تمام تر توجہ اپنی فیملی کو واپس لانے پر مبذول کی ہوئی ہے جو اسرائیل اور جرمنی کی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تب سے میڈیا اداروں کو 300 کے قریب انٹرویوز دے چکے ہیں۔
’میرے لیے آج بھی 7 اکتوبر ہی ہے۔ وقت رک گیا ہے۔‘
یرغمالیوں کو آزاد کروانا اسرائیلی جنگ کا ایک اہم مقصد ہے جبکہ حماس متعدد بار کہہ چکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں یرغمالی بھی ہلاک ہوئے ہیں تاہم ان دعووں کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
یونی اشر نے کہا ’ہم امن چاہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی شہری آبادی تکلیف میں ہو۔‘
یونی اشر کی طرح ایلا بین اپنے والدین کے لیے پریشان ہیں جنہیں بیری کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔
ایلا بین کا کہنا ہے کہ انہیں سونے کے لیے بہت زیادہ گولیاں لینا پڑتی ہیں اور ہفتے میں دو مرتبہ وہ تھیراپی کے لیے جاتی ہیں۔

مختلف ممالک میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

 بیری کے علاقے میں ایک سو سے زائد رہائشی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
ایلا بین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر یرغمالیوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں اور میڈیا پر انٹرویوز دیتی رہتی ہیں تاکہ اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جا سکے۔
ایلا بین کی والدہ راز ریڑھ کی ہڈی کے  ٹیومر کے مرض میں مبتلا ہیں اور نقل و حرکت کے مسائل سے بھی دوچار ہیں۔

شیئر: