شان مسعود کو نہ صرف بطور کپتان بلکہ بطور بیٹر بھی خود کو منوانا ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آخر کار بابر الیون کی ورلڈ کپ میں شکست شان مسعود کی فتح کا سبب بن گئی۔ پی سی بی اور کرکٹرز کے ایک گروپ کے درمیان خاموش لڑائی کا آغاز سال کے آغاز پر ہوا ، یہ لڑائی اتنی خاموش بھی نہ تھی۔
گذشتہ سال انگلینڈ کے ہاتھوں ہوم سیریز میں وائٹ واش کے بعد بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کی بحث کا آغاز ہوا تو کچھ کرکٹز نے ’سوچنا منع ہے‘ کے ہیش ٹیگ سے ٹوئٹس کیے۔
فاسٹ بالر شاہین آفریدی نے لکھا کہ بابراعظم ہمارے کپتان ہیں اور رہیں گے کچھ اور سوچنا بھی منع ہے۔ اس وقت چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے جنوری میں نیوزی لینڈ کے خلاف تین ون ڈے میچز کی سیریز کے لیے شان مسعود کو ون ٹیم کا نائب کپتان مقرر کردیا مگر بابر اعظم اور ٹیم منیجمنٹ نے انہیں پہلے دو ون ڈے میچز میں فائنل الیون میں شامل کرنے کے بجائے ڈریسنگ روم میں بٹھایا۔
یہ کپتان اور اس وقت کی ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے جہاں بورڈ کو خاموش پیغام تھا وہیں پلیئرز پاور کا شاخسانہ بھی۔
بورڈ اور بابر اعظم کے درمیان کشمش نے شان مسعود کو غیر ضروری دباؤ میں مبتلا کردیا۔ وہ 2022 میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں 43.75 کی اوسط سے پاکستان کے کامیاب ترین بیٹر رہے تھے۔
شان مسعود رواں سال سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ٹیم کا حصہ رہے، ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد بابراعظم تینوں فارمیٹس کی قیادت سے دستبردار ہوئے تو پی سی بی نے انہیں ٹیسٹ ٹیم کا کپتان مقرر کردیا۔
شان مسعود ہی کیوں؟
پاکستان کرکٹ میں نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے اختلافات سے کون واقف نہیں مگر شان مسعود کے معاملے پر دونوں ایک پیج پر نظر آئے۔
نجم سیٹھی چیئرمین منیجمنٹ کمیٹی تھے تو شان کو ون ڈے ٹیم کا نائب کپتان مقرر کرکے آگے بڑھایا اب ذکا اشرف کے پاس منیجمنٹ کمیٹی کی سربراہی ہے تو شان مسعود ٹیسٹ ٹیم کےکپتان بن گئے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کی اسٹبلشمنٹ کویت میں پیدا ہونے والے 34 سالہ شان مسعود کو ہی کپتان کیوں بنانے پر بضد رہی؟
دراصل بیٹنگ کے ساتھ ساتھ روانی اور اعتماد سے انگریزی بولنا شان مسعود کی اضافی صلاحیت ہے۔
وہ اعتماد کے ساتھ میڈیا کا سامنا کرتے ہیں اور تیکھے سوالات کا بھی خندہ پیشانی سے جواب دینے پر مہارت رکھتے ہیں۔ شان مسعود سے پہلے سلمان بٹ اور مصباح الحق کی بطور کپتان تقرری میں انگریزی پر مہارت نے اہم کردار ادا کیا تھا ورنہ اس وقت بھی ٹیم میں دونوں سے زیادہ تجربہ رکھنے والے کھلاڑی دستیاب تھے۔
مصباح الحق کی اضافی خصوصیات ان کی ایم بی اے کی ڈگری اور دھیما مزاج تھیں۔ 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد بورڈ کا خیال تھا کہ ٹیم کا کپتان ایک تعلیم یافتہ شخص کو ہونا چاہیے، یوں اگلے 6 سال مصباح الحق نے جم کر کپتانی کی حالانکہ 2010 کے ناکام دورہ آسٹریلیا کے بعد نہ صرف وہ ٹیم سے باہر ہوگئے تھے بلکہ کیریئر بھی خطرے سے دوچار ہوگیا تھا۔
کرکٹ یا پڑھائی؟
عبد الحفیظ کاردار، جاوید برکی، عمران خان اور رمیز راجہ کی طرح شان مسعود بھی مضبوط خاندانی پس منظر رکھتے ہیں، شان مسعود کے والد منصور مسعود خان ایک کامیاب بینکر اور پی سی بی گورننگ بورڈ کے رکن رہ چکے ہیں۔
مشیر خزانہ وقار مسعود خان ان کے چچا ہیں۔ منصور مسعود خان کرکٹ کے دلدادہ ہیں۔ وہ انڈیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جاکر پاکستانی ٹیم کے میچز دیکھتے رہے ہیں۔
خلیج ٹائمز کو ایک انٹرویو میں منصور مسعود خان نے بتایا تھا کہ بہت سے باصلاحیت کھلاڑی تعلیم کی وجہ سے کرکٹ جاری نہیں رکھ پاتے مگر ہم نے بطور والدین شان کو کرکٹ کھیلنے اور ساتھ پڑھانی جاری رکھنے میں پوری معاونت فراہم کی۔
ہم نے انہیں برطانیہ کہ ایک بورڈنگ سکول میں رکھا جہاں بطور کھلاڑی ان کی صلاحیتوں میں نکھار آیا، شان بہت اچھے طالب علم اور ہمیشہ ہی اچھے نمبر حاصل کیے۔
پہلا ہی امتحان مشکل
دورہ آسٹریلیا پاکستانی کرکٹرز کے لیے ہمیشہ ہی چیلنجنگ رہا ہے۔ عمران خان اور جاوید میانداد جیسے بڑے نام بھی آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز جیتنے میں ناکام رہے۔
وسیم اکرم، انضمام الحق، مصباح الحق اور اظہر علی کی قیادت میں ٹیم وائٹ واش ہوئی۔ پاکستان نے آخری نومبر 1995 میں آسٹریلوی سرزمین پر ٹیسٹ میچ جیتا تھا مگر سیریز اس وقت بھی ہار گئے تھے۔
آسٹریلیا میں کھیلے گئے آخری تمام چودہ ٹیسٹ میچز آسٹریلیا نے جیتے جو پاکستان کی مایوس کن کارکردگی کا ثبوت ہے۔
کیا شان مسعود 28 سال بعد آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیت کر مسلسل ناکامیوں کا سلسلہ توڑنے میں کامیاب ہوں گے؟ بطور کپتان یہی ان کے لیے پہلا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
شان مسعود بطور بلے باز
اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو 30 ٹیسٹ میچز کھیلنے کے بعد بھی شان مسعود کی بیٹنگ اوسط صرف 28.51 ہے۔ وہ چار سینچریاں اور سات نصف سینچریاں بناچکے ہیں۔
ان کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہی ٹیم سے ان کے ان اور آوٹ ہونے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ یہ شان مسعود کی خوش قسمتی ہے کہ وہ نہ صرف ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھا کر سلیکٹرز کا اعتماد ہر بار دوبارہ حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اس بار پی سی بی نے کپتانی کا تاج بھی ان کے سر سجا دیا ہے۔
شان مسعود کو نہ صرف بطور کپتان بلکہ بطور بیٹر بھی خود کو منوانا ہوگا۔ انہیں آسٹریلیا کی باؤنسی پچز پر مچل سٹارک، پیٹ کمنز اور جوش ہیزل ووڈ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ سیریز ورلڈ ٹیسٹ چمیمپئن شپ کا حصہ ہے اس لیے ہر میچ اہم ہے۔
بابراعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم 2021-2023 کی چیمپئن شپ میں ساتویں نمبر پر رہی تھی۔ کیا شان مسعود ٹیم کو ساتویں پوزیشن سے ٹاپ تھری ٹیموں میں لاسکیں گے؟