Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بحر ہند میں اسرائیلی ارب پتی کے جہاز پر مشتبہ ایرانی حملہ

المیادین چینل نے بھی رپورٹ کیا کہ بحر ہند میں ایک اسرائیلی جہاز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک امریکی دفاعی عہدیدار کے مطابق ایک اسرائیلی ارب پتی کے مال بردار جہاز پر بحر ہند میں ایک مشتبہ ایرانی ڈرون نے حملہ کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سی ایم اے سی جی ایم سیمی (مال بردار جہاز) پر جمعے کو حملہ ایک ایسے وقت مں ہوا ہے جب اسرائیل اور حماس کی کئی ہفتوں سے جاری جنگ میں عالمی شپنگ انڈسٹری بھی نشانہ بن رہی ہے۔
اس کے باوجود کہ عارضی جنگ بندی کی وجہ سے جنگ رکی ہوئی ہے اور حماس نے فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ کیا ہے، یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
امریکی دفاعی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’شبہ ہے مالٹا کے جھنڈے والے جہاز کو بین الاقوامی پانیوں میں ایک مثلث نما، بم لے جانے والے شاھد 136 ڈرون سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈرون پھٹ گیا جس سے جہاز کو نقصان پہنچا لیکن اس کا عملہ محفوظ رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘ تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ امریکی فوج ایسا کیوں سمجھتی ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔
المیادین چینل جو سیاسی طور پر ایرانی حمایت یافتہ لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے ساتھ منسلک ہے، نے بھی رپورٹ کیا کہ بحر ہند میں ایک اسرائیلی جہاز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
چینل نے اس خبر کے حوالے سے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیا، جس کا بعد میں ایرانی میڈیا نے بھی حوالہ دیا۔

ایسٹرن پیسیفک شپنگ اسرائیلی ارب پتی ایڈان اوفر کی کمپنی ہے۔ (فوٹو: ہارٹیز)

سیمی سنگاپور میں واقع ایسٹرن پیسیفک شپنگ کی ملکیت ہے، جو اسرائیلی ارب پتی ایڈان اوفر کی کمپنی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے سنگاپور میں ایسٹرن پیسیفک شپنگ کے ایک فون نمبر پر رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسرائیلی فوج نے بھی جہاز پر حملے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا۔
خیال رہے کہ 19 نومبر کو اسرائیل نے کہا تھا کہ یمن کے حوثی باغیوں نے ایک مال بردار جہاز کو جنوبی بحیرہ احمر سے اغوا کر لیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے کہا تھا کہ ایک جہاز کو ضبط کر لیا گیا ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ جہاز اسرائیل کی ملکیت نہیں اور نہ ہی وہ اس کے آپریشن میں شامل ہے۔

شیئر: