Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسولین سے مائیکرو ویو تک، تجربات جو اہم ایجادات کا سبب بنے

کینیڈا کے دو ڈاکٹروں نے 1921 میں انسولین ایجاد کی تھی۔ فوٹو: یونیورسٹی آف ٹورونٹو
سائنسی تحقیق کے حوالے سے ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب اتفاقیہ طور پر کچھ ایسا دریافت ہو گیا جو آنے والے برسوں میں انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا۔
ایسا ہی کچھ سنہ 1889 میں ہوا جب جرمنی کے دو ڈاکٹر نظام انہظام میں لبلبے کے کردار پر تجربات کر رہے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک کتے کا لبلبہ نکالا مگر وہ اس وقت چونک گئے جب کتے کے پیشاب پر مکھیاں بیٹھنے لگیں اور وہ یوں اتفاقیہ طور پر انسولین دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
گائے پالنے والی نے تاریخ کی پہلی ویکسین دریافت کی 
یہ 18ویں صدی کے اواخر کی بات ہے جب کیٹل فارمنگ سے منسلک ایک خاتون نے برطانوی طبیب ایڈورڈ جینز کو بتایا کہ ’کاؤ پاکس‘ کے مرض میں مبتلا افراد چیچک کے مرض سے متاثر نہیں ہوتے۔ 
خاتون کے اس انکشاف پر ڈاکٹر ایڈورڈ نے غور کرنا شروع کیا اور ایک مریض سے السر کا نمونہ لیا اور اسے ’جمیز فلپس‘ نامی 8 سال کے ایک لڑکے کو انجیکٹ کیا جس کے باعث اسے معمولی سا بخار ہوا اور تھوڑے سے دانے نکلے تاہم اس کی صحت متاثر نہیں ہوئی بلکہ اس میں بہتری دکھائی دی۔ 
چند ماہ بعد ڈاکٹر نے لڑکے کو دوسری خوراک دی جس میں چیچک کے وائرس تھے ۔نتائج حیران کن تھے کیوں کہ وہ چیچک کے وائرس سے متاثر نہیں ہوا تھا۔ 
حلوہ مائیکرو ویو کی دریافت کا باعث بنا 
سنہ 1945 میں امریکی انجینئر’پرسی اسپینسر‘ نے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہا مگر صنعت کاری میں ان کی دلچسپی نے انہیں انجینئر بنا دیا۔ وہ ’میگنیٹرون‘ کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔ 
ایک دن وہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے جہاں ’میگنیٹرون‘ کے آلات نصب تھے۔ اسپینسر کی جیب میں مونگ پھلی کے پیسٹ سے بنا ہوا حلوہ تھا۔ اسپینسر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی جیب میں رکھا ہوا حلوہ جو ٹھوس حالت میں تھا اچانک پگھلنے لگا۔  
اس حیران کن انکشاف نے ان کو اپنی جانب متوجہ کیا اور یوں بالآخر مائیکرو ویو کی ایجاد کی راہ ہموار کی۔ 
اسپینسر نے اپنے تجربے کو مزید آگے بڑھانے کے لیے مکئی کے دانوں کو ان میگنیٹک ریز کے قریب کیا تو ’بوم‘ کی آواز کے ساتھ مکئی کے دانوں نے ’پاپ کارن‘ کی شکل اختیار کر کی۔ یوں مائیکرو ویو کے ذریعے پہلی بار کھانا پکانے کے عمل کا آغاز ہوا۔

 الیگزینڈر فلیمنگ نے بیکٹیریا پر تحقیق کرتے ہوئے اینٹی بائیوٹیک ایجاد کی۔ فوٹو: بریٹانیکا

 سونے میں ملاوٹ کا کیسے پتا لگایا گیا
یونان میں بادشاہ پیرو دوم کی حکومت ہے، انہوں نے ایک روز اپنے سناروں کو حکم دیا کہ وہ ان کے لیے خالص سونے کا خوبصورت تاج تیار کریں۔ 
 جب تاج تیار ہو کر آیا تو بادشاہ پیرو دوم کو شک گزرا کہ سناروں نے بد دیانتی سے کام لیا ہے اور جو تاج تیار کیا گیا ہے اس میں خالص سونا نہیں لگایا گیا۔ 
اپنے شک کو دور کرنے کے لیے بادشاہ نے سائنسدان ’آرکیمیڈیز‘ کو طلب کیا اور اپنا شک بیان کرتے ہوئے تاج ان کے حوالے کیا اور کہا کہ وہ معلوم کریں کہ کیا تاج میں سونے کی جگہ کسی اور چیز کی ملاوٹ تو نہیں کی گئی؟ 
آرکیمیڈیز کو یہ فکر لاحق تھی کہ بادشاہ نے انہیں جو ذمہ داری سونپی ہے اس سے کس طرح نبھایا جا سکتا ہے۔ تاج کو پگھلانا بھی ممکن نہ تھا جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ تاج میں ملاوٹ کی گئی ہے یا نہیں۔ 
وہ یہ سوچتا ہوا عوامی حمام گیا اور وہاں حوض میں بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خیال نے اسے چونکا دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ  آرکیمیڈیز جیسے ہی حوض میں اترا تو پانی چھلک کر باہر نکل آیا۔ پانی کے باہر گرنے پر غور کرتے ہوئے انہوں نے وہ گتھی سلجھا لی جس کے حل کے لیے وہ کئی دن سے پریشان تھے۔ حل دریافت ہوتے ہی ’آرکیمیڈیز‘ حمام سے برہنہ حالت میں ’پا لیا، پا لیا‘ کہتے ہوئے نکلے۔ 
اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آرکیمیڈیز نے سونے اور چاندی کے دو ہم وزن نمونے لیے کیونکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ سونے کا وزن چاندی سے زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے دونوں (سونے اور چاندی کے) نمونوں کو پانی سے بھرے ایک برتن میں رکھا۔ اگرچہ دونوں نمونے مقدار میں برابر تھے لیکن چاندی جو کہ سونے کے مقابلے میں کم کثافت کی حامل تھی مگر اس کا حجم سونے سے زیادہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ چاندی والے کنٹینر سے پانی کی زیادہ مقدار باہر نکلے گی۔ 
اب آرکیمیڈیز کو تاج کے بارے میں اپنا تجربہ دہرانا تھا جس سے یہ ثابت ہوتا کہ تاج میں ملاوٹ کی گئی ہے یا نہیں۔ انہوں نے بادشاہ کے لیے بنائے گئے تاج اور دوسرا سونے کا ٹکڑا جس کا وزن اسی تاج کے مساوی تھا دونوں کو الگ الگ پانی سے بھرے کنٹینر میں ڈبویا۔ 

امریکی انجینئر پرسی سپینسر کی میگنیٹک ویوز پر تحقیق مائیکرو ویو کی ایجاد کا سبب بنی۔ فوٹو: یونیورسٹی آف اوریگن

اس تجربے سے جو نتیجہ برآمد ہوا وہ حیرت انگیز تھا کیونکہ تاج کے مساوی خالص سونے کے ٹکڑے کے کنٹینر سے نکلنے والے پانی کی مقدار کم تھی جبکہ تاج والے کنٹینر سے زیادہ مقدار میں پانی باہر گرا جس کا مطلب واضح تھا کہ بادشاہ کا شک بے جا نہ تھا۔ 
اس طرح ’آرکیمیڈیز کے قوانین‘ منظر عام پر آئے اور اس کے ذریعے نیا ضابطہ مقرر ہوا جس سے یہ جانچنا آسان ہو گیا کہ کس چیز میں کیا ملاوٹ کی گئی ہے۔
دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹیک
ان سطور میں ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا جو 28 ستمبر 1928 کو اپنی چھٹیاں گزار کر وطن واپس لوٹے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی لیبارٹری جہاں وہ مختلف نوعیت کے بیکٹیریاز پرتحقیق کررہے تھے، کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔  
وہ جس بیکٹیریا پر تحقیق کر رہے تھے، اس کی پلیٹ پر’پینسیلینیم‘ فنگس نے حملہ کر دیا جس سے پلیٹ کی حالت انتہائی خراب ہو گئی۔ 
ڈاکٹر فلیمنگ نے پلیٹ جس پر ہر طرف فنگس لگی تھی، کا تجزیہ کرنے کا سوچا اور پلیٹ کو ایک طاقتور خوردبین کے ذریعے جانچنے لگے۔ اس کے نتیجے میں طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا جس نے شعبۂ طب کی تاریخ ہی بدل دی۔ 
ڈاکٹر فلیمنگ نے خوردبین کے ذریعے جو مشاہدہ کیا وہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ فنگس نے نقصان دہ بیکٹیریا کو بڑھنے سے روکا اور اسے پھیلنے نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک تیار کی۔
انسولین کی دریافت
دو ڈاکٹروں فریڈرک بینٹنگ اور جان میکیوڈ کو1923 میں ذیابیطس کے علاج کے لیے انسولین پر تحقیق  کرنے پر نوبل انعام دیا گیا۔  
تاہم یہ درست نہیں کہ انسولین ان ڈاکٹروں کی دریافت ہے اس کہانی کا آغاز 1889 میں جرمنی کے دو ڈاکٹروں جوزف وان میرنگ اور آسکرمنکووسکی کے سر ہے جنہوں نے ایک صحت مند کتے پر اپنا تجربہ کیا جس میں انہوں نے کتے کے لبلبے کو نکالا جس سے انہیں یہ دیکھنا تھا کہ نظام ہضم میں لبلبے کا کیا کردار ہوتا ہے۔ 

سائنسدان آرکیمیڈیز نے سونے کا وزن جاننے کا طریقہ دریافت کیا۔ فوٹو: شٹر سٹاک

کتے کا لبلبہ نکالنے کے چند دن بعد ڈاکٹروں نے دیکھا کہ کتے کے پیشاب پر مکھیوں کا غول جمع ہونا شروع ہو گیا جس کے باعث ان کے تجسس میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے پیشاب کا معائنہ کیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مکھیاں کیوں پیشاب پر جمع ہو رہی ہیں۔ 
پیشاب کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ شوگر کی رطوبت کی وجہ سے مکھیاں اس پر جمع ہو رہی ہیں، جس پر ڈاکٹروں نے لبلبے اور ذیابیطس کے درمیان تعلق کو دریافت کیا کیونکہ جیسے ہی کتے کے جسم سے لبلبے کو نکالا گیا اس کے پیشاب میں شوگر کی مقدار رطوبت کی صورت میں ظاہر ہونے لگی۔ 
انہوں نے مزید معائنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ لبلبہ ایک ایسا مادہ خارج کرتا ہے جو جسم میں شوگر کے میٹابولزم کو کنٹرول کرتا ہے بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ پراسرار مادہ انسولین ہے۔ 
اس طرح انسولین کے بارے میں پہلی بار 1889 میں دریافت عمل میں آئی تھی جس پر بعد ازاں تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور ذیابطیس کے علاج کے لیے انسولین دریافت ہوئی۔ 

شیئر: