ذوالفقار علی کو چند افراد نے بتایا تھا کہ ’پرائم زون ایل پی جی‘ نامی کمپنی انہیں ہر ماہ سات سے 14 فیصد تک منافع ادا کرے گی۔
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’میں اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور میری چار بیٹیاں ہیں۔ اس لیے مجھے یہ سرمایہ کاری مناسب معلوم ہوئی۔‘
لاہور میں تقریباً پانچ سو کے قریب متاثرین نے الزام عائد کیا ہے کہ پرائم زون نامی نجی کمپنی نے اُن کے ساتھ فراڈ کر کے اربوں روپے ہڑپ کر لیے ہیں۔
گرین ٹاؤن کے رہائشی آصف ریاض نے دھوکہ دہی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کروایا ہے۔
مقدمے کے مطابق آصف ریاض شوکت خانم ہسپتال میں ملازمت کرتے تھے اور ملازمت چھوڑنے کے بعد انہیں جو بقایا جات ملے وہ انہوں نے پرائم زون کمپنی میں انویسٹ کیے جبکہ اس سے قبل بھی اپنی تنخواہ میں سے پرائم زون میں پیسے انویسٹ کرتے رہے۔
مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’میرے علاوہ دیگر دوستوں اور اہل محلہ نے بھی میرے کہنے پر رقوم انویسٹ کیں اور ان کو گیس خرید کر منافع کا لالچ دیا گیا تھا۔‘
یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ملزموں کے خلاف کارروائی کر کے رقوم واپس دلائی جائیں۔
رپورٹ میں کمپنی کے مبینہ سی ای او عمران علی اور جی ایم شہزاد کو نامزد کیا گیا ہے۔
مقدمے کے ساتھ دیگر 150 متاثرین کی تفصیلات بھی لگائی گئی ہیں۔
’ہم نقد رقم دے کر سرمایہ کاری کرتے تھے‘
محمد شاہد نامی ایک متاثرہ شخص نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لوگوں نے کچھ عرصہ قبل ہی اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شروع کی تھی۔ کمپنی نے تمام متعلقہ دستاویزات بنائی ہوئی تھیں اور لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا تھا کہ کمپنی قانونی طور پر رجسٹرڈ ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’وہ ہم سے اسٹامپ پیپر پر راضی نامہ لکھوا لیتے تھے اور ہم نقد رقم دے کر سرمایہ کاری کرتے تھے۔‘
ان کے مطابق کمپنی کی طرف سے ہر ماہ سات سے 14 فیصد منافع فراہم کیا جا رہا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اس کے بعد جب لاہور کے انویسٹر گلبرگ میں موجود اس کمپنی کے دفتر پہنچے تو وہ بند تھا اور دفتر کے باہر ایک نوٹس چسپاں تھا جس پر لکھا تھا ’پرائم زون اپنے تمام معزز کسٹمرز کو مطلع کرتی ہے کہ میاں ندیم، فہیم انجم، میڈم مہم اور ان کے 8 ساتھی کمپنی کے ساتھ خرد برد کر چکے ہیں جن کی وجہ سے کمپنی کو کچھ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور کمپنی نے ان کو فارغ کر دیا ہے۔‘
نوٹس میں مزید لکھا تھا ’پرائم زون کے وہ انویسٹرز جو ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے وہ فوراً کمپنی کے ہیڈ آفس سے رابطہ کریں تاکہ ہیڈ آفس ان کے معاملات براہ راست دیکھے اور انہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
’فون پر جواب ملا کہ یہ کمپنی کا نمبر نہیں‘
جب مبینہ طور پر اسلام آباد میں ہیڈ آفس کے نمبر پر رابطہ کیا گیا تو دوسری جانب سے بتایا گیا کہ یہ ہیڈ آفس کا نمبر نہیں ہے جبکہ اسی نمبر پر کمپنی کا آفیشل واٹس ایپ گروپ موجود ہے۔
مبینہ ہیڈ آفس کے ترجمان نے بتایا کہ ’اس کمپنی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کمپنی لوگوں کے ساتھ فراڈ کر کے بھاگ گئی ہے اور لاہور والے اب احتجاج کر رہے ہیں۔‘
متاثرہ شہری محمد شاہد نے بتایا کہ ’کمپنی کے دستیاب تمام رابطہ نمبرز بند جا رہے ہیں اور جن نمبرز پر کال جا رہی ہے وہاں سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔‘
محمد شاہد کے مطابق کمپنی نے سرمایہ کاروں کو بتایا تھا کہ وہ سرمایہ کاری کر کے غیرمعمولی منافع کمائیں۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ کمپنی ہمارے پیسوں سے گیس خرید کر نومبر اور دسمبر میں اچھے داموں فروخت کرے گی اور منافع کا بڑا حصہ انویسٹرز کو دیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں کچھ گاڑیوں کے کاغذات بھی دکھائے گئے تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ گاڑیاں مہنگے داموں فروخت کر کے منافع ہمیں بھی دیا جائے گا۔‘
’ہمیں نو ماہ تک منافع ملا‘
ایک اور متاثرہ شہری علی نقوی نے کہا کہ ’ہم نے اپنی فیملی کے ارکان کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر 80 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ ہمیں نو ماہ تک منافع ملا ۔ وہ یہ پیسے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں بھیج دیتے تھے۔‘
اردو نیوز کو دستیاب ہونے والی دستاویزات کے مطابق اب تک تقریباً 200 سے زیادہ شہریوں کے ساتھ یہ فراڈ ہو چکا ہے۔
محمد شاہد نامی متاثرہ شہری نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہے جس میں 600 سے زیادہ متاثرین شامل ہیں۔ وہ مزید فہرستیں بھی ترتیب دے رہے ہیں۔
ایک متاثرہ شہری نے بتایا، ’ہم سب کے ساتھ مجموعی طور پر 11 ارب روپے کا فراڈ ہوا ہے اور یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘
تاہم اردو نیوز کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً دو ارب 60 کروڑروپے کا فراڈ ہو چکا ہے۔
محمد شاہد کے مطابق یہ فہرستیں فی الحال نامکمل ہیں اور ایسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے سرمایہ کاری کرنے کے لیے اپنے گھر تک فروخت کیے ہیں۔ ہم ابھی لوگوں سے رابطے کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کئی متاثرین ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’آج انہوں نے لبرٹی گول چکر پر احتجاج بھی کیا ہے۔ اس سے قبل ہم نے پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کیا تھا لیکن ہماری دادرسی نہیں کی جا رہی۔‘
’رات دو بجے ٹرک سامان لے کر چلے گئے‘
افضل سعید نامی شہری نے اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر تھانہ گلبرک میں مقدمے کے اندراج کے لیے شکایت درج کروا دی ہے۔ شکایت کے متن کے مطابق ’عمران بٹ نامی شخص نے خود کو کمپنی کا سی ای او ظاہر کیا اور رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ دکھا کر اعتماد حاصل کیا او ر پھر ہم سے ایل پی جی کے لیے پیسے لیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عمران بٹ نے ہم سے کہا کہ وہ ہمیں اس پر منافع دے گا۔ اگست کے مہینے میں مَیں نے 10 لاکھ روپے دیے اور عمران بٹ نے بتایا کہ اُس نے ایل پی جی خرید کر امانتاً اپنے گودام میں رکھ دی ہے لیکن آج جب میں دفتر میں اپنا منافع وصول کرنے کے لیے پہنچا تو دفتر بند پڑا تھا۔‘
محمد شاہد کے مطابق کمپنی نے چھ چھ کروڑ کی دو گاڑیاں خریدی تھیں لیکن ہمیں آس پاس کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ گزشتہ رات دو بجے کے قریب یہاں ٹرک آئے تھے اور وہ اپنا سارا سامان لے کر چلے گئے ہیں۔
اس سکینڈل پر تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ اب بھی کئی ایجنٹس لوگوں سے پیسے بٹور رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کمپنی سے متعلق دستاویزات پوسٹ کر کے لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر قائل کیا جا رہا ہے۔ ہم نے انویسٹر بن کر گوجرانوالہ کے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’آپ سرمایہ کاری کریں ہم آپ کو منافع دیں گے۔‘ جب انہیں فراڈ کے حوالے سے بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ لاہور میں ایک اور کمپنی نے ان کو بدنام کرنے کے لیے یہ سب کیا ہے۔
گوجرانوالہ کے ایجنٹ نے اردو نیوز کو چند ویڈیوز اور کمپنی کے لیٹر ہیڈ پر پیغامات بھی بھیجے جن پر ان تمام الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
کمپنی کی منسوب تردیدی بیان
ایک پمفلٹ پر کمپنی کے مبینہ سی ای او عمران بٹ کے نام سے پیغام میں بتایا گیا ہے ’چند عناصر پرائم زون کے بارے میں غلط افواہ پھیلا رہے ہیں۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں اور افواہوں سے بچیں۔ کمپنی آپ کو یکم دسمبر سے نومبر اور دسمبر کا منافع ترتیب وار دے گی جس طرح گزشتہ 23 ماہ سے دیا جا رہا تھا۔
کمپنی کے مبینہ سی ای او نے تمام الزامات کو رَد کرتے ہوئے دوسری نجی کمپنی پر الزام عائد کیا ہے۔ تاہم اردو نیوز نے جب عمران بٹ اور کمپنی کے دیگر عہدے داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اُن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔