Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں سب سے زیادہ مطلوب حماس کے تین رہنما جنہیں اسرائیل نشانہ بنانا چاہتا ہے

اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں حماس کے رہنما یحیٰ سنوار بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل کو غزہ میں حماس کے تین رہنماؤں کی تلاش ہے جنہیں وہ نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ انہی رہنماؤں کے پوسٹرز اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے دفتر کی دیوار پر بھی چسپاں ہیں جبکہ ان کے نیچے جونیئر فیلڈ کمانڈرز کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد یہ پوسٹرز کئی مرتبہ پرنٹ کیے جا چکے ہیں۔ جن کمانڈرز کو اسرائیل نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا، ان کے چہروں پر کراس کے نشان ہیں۔
لیکن اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست تین افراد ہیں جنہیں وہ نشانہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان میں حماس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈ کے سربراہ الضیف، کمانڈ میں ان سے دوسرے نمبر پر مروان عیسیٰ اور غزہ میں حماس کے لیڈر یحیٰ سنوار شامل ہیں۔
ان تینوں افراد پر مشتمل خفیہ ملٹری کونسل نے سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس حملے میں تقریباً 12 سو افراد ہلاک ہوئے جبکہ 240 کو یرغمال بنایا گیا۔
یہ حملہ گزشہ 75 سالہ تاریخ میں مہلک ترین قرار دیا جاتا ہے۔
حماس ذرائع کے مطابق یہ تین لیڈر ملٹری آپریشن کی رہنمائی کر رہے ہیں اور یرغمالیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی غرض سے ہونے والے مذاکرات کی بھی قیادت کرتے رہے ہیں۔
عسکری ماہرین کے مطابق ان تین رہنماؤں کی ہلاکت سے اسرائیل کو اپنی فتح کا دعویٰ کرنے کا موقع ملے گا لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے جس میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈرونز اور طیاروں کی مدد سے اسرائیلی فوجیوں کو شمالی اور مغربی غزہ کے کم گنجان آباد علاقوں میں تو کامیابی ہوئی لیکن لڑائی کا سب سے مشکل اور تباہ کن مرحلہ ابھی باقی ہے۔

جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی ابھی تک غزہ کے اندرون علاقوں میں داخل نہیں ہوئے جہاں واقع سرنگوں میں حماس کی قیادت موجود ہے اور نہ ہی گنجان آباد جنوبی علاقوں میں گئے ہیں۔
ان سرنگوں میں سے کچھ 80 میٹر کی گہرائی پر واقع ہیں جنہیں فضائی حملوں میں تباہ کرنا مشکل ہے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں ملٹری پروگرام کے ڈائریکٹر مائیکل آئزن شٹاٹڈ کا کہنا ہے کہ شاید حماس سمیت تمام فریقین کو نہیں معلوم کہ لڑائی میں اب تک کتنے جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
’اگر اسرائیل کہتا ہے کہ ہم نے سنوار کو مار دیا، ہم نے عیسیٰ اور محمد الضیف کو مار دیا۔ تو پھر یہ ایک واضح علامتی اور معنی خیز فتح ہو گی۔‘
انہوں نے اسرائیل کو درپیش مشکل صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسرائیل انہیں مارنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو کیا وہ تب تک لڑائی جاری رکھے گا جب تک اس میں کامیاب نہ ہو جائے۔‘
اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں 400 کے قریب سرنگیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن گزشتہ برسوں میں حماس کی جانب سے بنائے گئے نیٹ ورک کے مقابلے میں اسرائیل کی یہ کامیابی انتہائی معمولی ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے مطابق غزہ آپریشن میں ان کے کم از کم 70 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر کے بعد سے کُل 392 ہلاک ہوئے۔
صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں اسرائیلی فوجی افسر نے بتایا کہ حماس کے تقریباً پانچ ہزار جنگجو مارے جا چکے ہیں جو مجموعی تعداد کے پانچویں حصے کے برابر ہیں، جبکہ ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل چھ بٹالینز کو نقصان پہنچایا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 15 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لبنان سے تعلق رکھنے والے حماس کے لیڈر اسامہ حمدان نے ان اعداد و شمار کو ’اسرائیلی پروپیگنڈہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عسکری کامیابی میں اپنی کمیوں کو چھپانے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔
غزہ میں حماس سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ حماس کو بطور عسکری طاقت تباہ کرنے کا مطلب ہے کہ زیر زمین سرنگوں میں اور گھر گھر لڑائی لڑی جائے جس میں طویل عرصہ لگ جائے گا۔

شیئر: