Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سوق الاولین‘ میں چاچا حسن کی کپڑوں کی دکان میں خاص کیا؟

سیکڑوں برس پرانے انمول کپڑے ہیں، انہیں تاریخی خزانہ کہہ سکتے ہیں (فوٹو: اخبار 24)
ریاض سیزن میں ’سوق الاولین‘ میں چاچا حسن بن غیث کی دکان وزیٹرز کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ 
اخبار 24 کے مطابق چاچا حسن گاہکوں کا استقبال خوشدلی سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہاں سیکڑوں برس پرانے انمول کپڑے ہیں۔ انہیں تاریخی خزانہ کہہ سکتے ہیں‘۔ 
ان کا کہنا ہے کہ’ کپڑوں کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں پہنا جاتا ہے اور یہی کافی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ کپڑے  لوگوں کی تاریخ، ان کی تہذیب اورمزاج کا پتہ دیتے ہیں‘۔ 
چاچا حسن نے بتایا’ انہیں کپڑے فروخت کرنے کا ہنر اپنے والد اور دادا سے ورثے میں ملا۔ صنعتی انقلاب سے  پہلے سے انہیں کپڑوں میں دلچسپی ہے‘۔
’پہلے ریشم، کاٹن اوراون جیسے ریشوں سے کپڑے تیار ہوتے تھے۔ سعودی عرب کے باشندے تیل کی دریافت سے قبل اس قسم کے کپڑے استعمال  کیا کرتے تھے‘۔ 
ان کا کہنا تھا کہ’ 1940 کے بعد مملکت میں مصنوعی ریشوں سے تیار کیے جانے والے کپڑے آنا شروع ہوئے‘۔ 
چاچا حسن کی دکان میں چین سے درآمد کیا جانے والا ریشمی لباس موجود ہے جسے ماضی میں سلطانہ شجرۃ الدر، شہزادی قطر الندی اور خلیفہ ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ استعمال کیا کرتی تھیں۔ 
چاچا حسن اپنی دکان پر آنے والے وزیٹرز کو اصلی اون کے کمبل بھی دکھا رہے ہیں جو سکاٹ لینڈ سے درآمد کیا جاتا تھا اور جنہیں فوج اور آرامکو کمپنی مقامی لوگوں میں تقسیم کرتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ صنعتی انقلاب سے قبل یہاں الساحلی کپڑے کا رواج تھا۔ اس کا رنگ سفید ہوتا تھا جسے کاٹن سے تیار کیا جاتا تھا‘۔ 
’سعودی خاندان اسی پر انحصار کرتے تھے۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کے کپڑے سفید کاٹن کے ہوتے تھے‘۔ 

شیئر: