Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چار نسلوں سے برتن بنانے والی کمہارن، ’مستقبل نظر نہیں آتا‘

ہر شعبے میں تیز رفتار جدت نے وقت کے ساتھ کئی اہم اشیا کو خاص سے عام بنا دیا ہے۔ اب تو ایسی کئی چیزیں اور شعبے ہیں جن کا وجود خطرے میں ہے۔ ایسی ہی داستان کراچی میں رہنے والے کمہاروں کی ہے، جو اس دور جدید میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔
کمہار مٹی سے برتن بنانے میں ماہر تھے۔ پرانے عہد کی کہانیوں میں ان کا ذکر نمایاں رہا ہے۔
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے مضافاتی علاقے یوسف گوٹھ سے متصل کمہار واڑا آج بھی آباد ہے۔
کمہار واڑا میں بسنے والے اب بھی مٹی سے برتن اور دیگر سامان بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں تیار کیے جانے والا سامان شہر سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھیجا جاتا ہے۔
مٹی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے کا ہنر رکھنے والی سکینہ بی بی بھی کئی دہائیوں سے یہیں آباد ہیں۔ سکینہ بی بی اس علاقے کی سب سے پرانی کمہار خاتون کہلاتی ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کے 70 برس مٹی کے کام میں گزار دیے ہیں اور آج بھی اپنے ہاتھ سے مٹی پر نقش و نگار بناتی ہیں۔
سکینہ بی بی کی زندگی کا سفر
سکینہ بی بی کو اپنی عمر تو یاد نہیں لیکن ان کے مطابق انہوں نے چار نسلوں میں یہ ہنر منتقل کیا ہے۔
سکینہ بی بی ایک بیٹی کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی بیٹی سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں کئی برسوں سے رہائش پذیر ہے۔ سکینہ بی بی کراچی میں اکیلے ہی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب عمر کم تھی، اس وقت تو مٹی کو کُوٹ کر برتن بنا لیا کرتے تھے لیکن جسم نے ساتھ چھوڑا ہے تو بس مٹی کے بنے سامان پر نقش و نگاری کرکے گزر بسر پر مجبور ہوں۔‘
سکینہ بی بی کے ایک پاؤں میں لچک ہونے کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا تھا لیکن انہوں نے اس کمی کو کبھی اپنی زندگی پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
وہ محنت اور لگن سے زندگی بھر روزی کماتی رہیں۔
سکینہ بی بی اپنے گزرے دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کبھی مٹی کے برتن اور دیگر سامان والوں کے بہت اچھے دن ہوا کرتے تھے۔ کام خوب چلتا تھا اور خریدار بھی بہت ہوتے تھے۔
’کئی مرتبہ تو دن رات کام کر کے آرڈر پورا کیا کرتے تھے۔ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے آمدن اور گھر کے حالات بھی اچھے ہوتے تھے۔ عمر کے ساتھ جہاں جسم سے طاقت کم ہوئی وہیں اس کام کی قدر بھی کم سے کم ہو گئی۔‘
’لوگ اب نئے دور میں مٹی کے برتن اور سامان سے زیادہ کانچ، پلاسٹک اور سٹیل کے سامان کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا کمہار واڑا سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اب تو لوگ شام سے پہلے ہی کام بند کر کے چلے جاتے ہیں۔‘

سکینہ بی بی بتاتی ہیں کہ کبھی مٹی کے برتن اور دیگر سامان والوں کے بہت اچھے دن ہوا کرتے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

سکینہ بی بی کا کہنا تھا کہ کمہار واڑا میں پہلے ہر گھر میں مٹی کا کام ہوتا تھا۔ عورتیں اور مرد سب یہی کام کرتے تھے۔ لیکن اب تو یہاں مشینوں کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں۔ بہت ہی کم لوگ رہ گئے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔
’اب محنت کا وہ صلہ بھی نہیں ملتا جو پہلے ملا کرتا تھا، اس لیے لوگ اب مٹی کے کام سے دور ہو کر دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔‘
مٹی کے برتنوں کا ہنر
سکینہ بی بی نے اپنی محنت اور لگن سے کمہار محلے میں شہرت حاصل کی۔ ان کے بنائے ہوئے برتن مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں میں دستیاب ہیں جو لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے مٹی کے برتن و دیگر سامان کی تیاری کے عمل کے بارے میں بتایا کہ مٹی کو کئی مراحل سے گزار کر ایک شکل دی جاتی ہے، چاہے وہ برتن ہوں، پرندوں کی مٹکیاں یا گملے اور شو پیس ہوں۔
مٹی کن مراحل سے گزر کر کوئی شکل اخیتار کرتی ہے؟
مٹی سے سامان بنانے کا ہنر جنتا آسان نظر آتا ہے اتنا ہے نہیں۔ مٹی سے مٹکیاں بنانے والے عبدالجبار کے مطابق یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ سب سے پہلے مٹی کو چھان کر ایک تالاب میں بھگویا جاتا ہے۔ مٹی کے نرم ہونے پر اسے چھان کر سوکھنے کے لیے گڑھے میں بھرا جاتا ہے۔ باریک مٹی جب بھیگ کر چھن جاتی ہے اور گڑھے میں سوکھ جاتی ہے تب اسے واپس اٹھایا جاتا ہے اور اسے مزید نرم کرنے کے لیے پیروں کی مدد سے پیسا جاتا ہے۔
اس عمل کے بعد اصل کام شروع ہوتا ہے۔ مٹی کی ڈھیریوں کو کپڑے سے ڈھانپ کر رکھنے کے بعد چکی کو موٹر کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔
’پہلے یہ کام ہاتھ سے ہوتا تھا لیکن اب موٹر سے چکی چلا کر اس پر مٹی کو رکھا جاتا ہے۔ چکی چلتی ہے اور مٹی گول گھومتی ہے، ایسے میں ہم اپنے ہاتھ سے مٹی کو شکل دینا شروع کرتے ہیں۔‘
آہستہ آہستہ مٹی کی شکل بننا شروع ہوتی ہے اور پھر ضرورت کے مطابق ڈھال دیا جاتا ہے۔ مٹی کی مٹکی یا ہانڈی تیاری کے وقت تو سختی برداشت کر لیتی ہے لیکن تیار ہونے پر اسے بہت احتیاط سے رکھا جاتا ہے۔

مٹی سے مٹکیاں بنانے والے عبدالجبار کے مطابق یہ ایک محنت طلب کام ہے(فوٹو: اردو نیوز)

’سوچتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ کر کچھ اور کریں‘
عبدالجبار کا کہنا تھا کہ چکی پر مٹی سے تیار مٹکی کو سوکھنے کے لیے کھلے مقام پر رکھا جاتا ہے۔ سخت ہونے پر اسے احتیاط سے اٹھا لیا جاتا ہے۔
جہانزیب کے مطابق مٹکی یا ہانڈی کی تیاری کے بعد سب سے اہم کام اسے احتیاط سے رکھنا ہے۔ اگر احتیاط نہ کی گئی تو تیار سامان ایک ہلکی سی چوٹ سے ٹوٹ سکتا ہے اور یوں کئی دن کی محنت ایک لمحے میں ضائع ہو سکتی ہے۔
اس عمل کے بعد مٹی کے کچھ سامان کو بھٹی میں ڈالا جاتا ہے اور اس پر رنگ اور ڈیزائن کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ سامان ایسے ہی بازاروں میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اب مٹی کے برتن بنانے والوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ سوچتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ کر کچھ اور کریں تاکہ محنت کے صلے میں جائز آمدنی ملے اور گھر کا گزر بسر اچھے سے ہو سکے۔‘

شیئر: